منشی محمد اسحاق 1901 میں نوپورہ سرینگر کے ایک پڑھے لکھے اور صاحب ثروت خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی عبدالحمید بہت بڑے عالم تھے۔ ان کو اردو، فارسی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھیں لیکن کسی وجہ سے انہیں شایع نہ کر سکے۔ منشی اسحاق کو دسویں جماعت میں ہی تعلیم کو خیر باد کہنا پڑا۔وہ 21؍ جون1931ء کا ذکر کیا کرتے تھے۔ اسی دن شہر خاص خانقاہ معلی میں قیادت اور لوگوں نے تحریک کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے حلف اٹھایا تھا۔ منشی صاحب اس وقت خانقاہ معلی میں موجود تھے۔ اگرکشمیر کی تحریک کو پنجاب سے مدد ملی تو اس کی وجہ منشی اسحاق ہی بنے۔ ان کی ٹرانسپورٹ کمپنی کی گاڑیاں لاہور سے اخبارات اور پو سٹر وغیرہ چوری چھپے لاتیں جو یہاں خفیہ طور تقسیم ہوتے۔
1935ء میں انہوں نے ہفتہ وار ’’ذوالفقار‘‘ شائع کیا جو مسلم کانفرنس کا زبر دست حامی تھا۔ اس کے مدیر حکیم غلام حسین مخمور تھے۔ منشی صاحب پانچ بار گرفتار ہوئے۔پہلی بار وہ 1931ء کو زینت زندان بنے جب شیخ محمد عبداللہ نے ذمہ دار حکومت کا نعرہ الاپا۔ وہ تین ہفتوں تک سنٹرل جیل میں مقید رہے۔ دوسری بار کی گرفتاری کافی طویل تھے۔1938 میں ’’ ہمدرد‘‘ کا خصوصی شمارہ شائع ہوا جس پر حکومت نے پابندی لگادی، منشی صاحب کی کوششوں سے ہی یہ خصوصی شمارہ لوگوں تک پہنچ پایا۔ منشی صاحب نے شیخ محمد عبداللہ کا ہمیشہ ساتھ دیا۔ مولوی سعید کے مطابق اگر کشمیر چھوڑ دو تحریک میں منشی نہ ہوتے تو یہ تحریک صرف دو دن میں دم توڈ دیتی۔ دوسری بار ان کو اپنے گھر سے 28؍ ستمبر 1956ء کو گرفتار کیا گیا۔ اس وقت وہ محاذ رائے شماری کے قائمقام صدر تھے اور 29 ؍ستمبر کو محاذ کے کنونشن کا انعقاد اپنے گھر میں کرنے والے تھے۔ اس بار دو سال تک قید وبند میں رہے ، پہلے جموں سنٹرل جیل میں رکھا گیاپھر سرینگر لایا گیا لیکن اس سے پہلے 18؍دن تک بادامی باغ میں انہیں تشدد کے شرمناک مرا حل سے گزرنا پڑا۔
1960 میں جب وہ دوسری بار محاذ کے قایمقام صدر تھے، ان کو سوپور میں محاذ ی کنونشن کے دوران گرفتار کیا گیا۔ اس بار بٹوت کے قریب کسی جگہ قید رکھا گیا۔7؍ اپریل 1963 ء کو سنٹرل جیل سرینگر سے رہا کیا گیالیکن اسی سال دسمبر میں درگاہ حضرتبل سے موئے مقدس ؐ چوری ہونے کے پس منظر میں پھر سے گرفتار کئے گئے اور 12؍ فروری1964 ء کو رہا ہوئے۔ مارچ؍1965 ء میں وہ تیسری بار محاذ کے قایمقام صدر بنے ۔ اسی سال ہند پاک جنگ بھی ہوئی۔ منشی صاحب نے مدیر’’ آفتاب ‘‘خواجہ ثناء اللہ مرحوم سے 18؍ اگست کی شام کو دورانِ گفتگو کہا کہ پاکستان نے مجھ سے آوپریشن جبرالٹر کے بارے میں بات کی تھی: ’’افسوس کشمیر کو آزاد کرنے کا ایک سنہری موقع ہاتھ سے نکل گیا‘‘، یہ بات منشی صاحب نے اشکبار آنکھوں موصوف سے کہی۔ انہوں نے خواجہ صاحب سے مزید کہا ’’ مجاہدین ہوا ئی اڈہ ، ریڈیو اسٹیشن، تھانہ صدر، مہاراج گنج اور خانیار پر قبضہ کرتے، ہمیں عوامی سطح پر ان کو مدد کرنے کو کہا گیا تھا، اس کے ساتھ ہی ریڈیو’’صدائے کشمیر ‘‘ سے کشمیر میں مسلح جدوجہد کے آ غاز کا اعلان ہونا طے تھا۔ مقصد بھارتی حکام کو مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے مجبور کرنا تھالیکن ہم نے کچھ بھی نہ کیا اور اس طرح ایک سنہری موقع ہمارے ہاتھ سے نکل گیا‘‘۔ یہ وہی دن تھا جب بھارتی فوج نے بتہ مالو سری نگر کے ایک بڑے علاقے کو نذر آتش کیا اور اسی دن منشی صا حب محاذ کے قایمقام صدر کے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں ۔
فون نمبر9419009648
(بقیہ اگلی بدھ کو ملاحظہ فرمائیں)