ڈاکٹر ابو لااعلیٰ برصغیر کی تقسیم کے آس پاس چھانہ پورہ شوپیاں میںعبدلعزیز انزو کے ہاں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی طبیعت تحریک کی طرف مائل تھی۔ 1965 ء میں انہوں نے میڈیکل کالج سرینگر سے MBBS کیا اور ریاست کے محکمہ صحت میں تعینات ہوئے۔ اسی دوران انہوں نے فضل حق قر یشی ، نذیر احمد وانی وغیرہ کے ساتھ مل کر بھارت کے خلاف عسکری محاذ کھولنے کا منصوبہ بنایا۔ چناںچہ الفتح نامی عسکری تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا لیکن جلد ہی یہ زیر زمین تنظیم پو لیس کی نظروں میں آگئی اورڈاکٹر صاحب سمیت پوری قیادت اور کارکنان گرفتار ہوئے۔ دورانِ حراست انہیں شر م ناک ٹارچر سے گزاراگیامگر ڈاکٹر صاحب کے ارادوں میں مزید پختگی آگئی ۔ 1975ء میں انہوں نے اندرا عبداللہ ایکارڈ کے خلاف لال چوک سرینگر میں پاکستانی پرچم لہرایا۔ اس کی پاداش میں ڈاکٹر صاحب گرفتار کئے گئے۔ رہا ئی پانے بعد انہوں نے بکھری ہوئی پیپلز لیگ کو یکجا کرنے کی ازحد کوششیں کیں لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ انہوں نے مسلم متحدہ محاذ میں بھی اہم رول ادا کیا۔ جب حکام نے جمہوریت کا سربازار نیلام کیا تو ڈاکٹر اعلیٰ نے شوپیاں تھانے کے باہر انتخابات میں ہوئی دھاندلیوں کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ نوے میں عسکری جدوجہد شروع ہوئی تو وہ اپنے آپ کو اس سے الگ نہ رکھ سکے، پولیس اور فوج نے ان کو گرفتار کرنے کے لئے ان کی رہایش گاہ پر متعدد چھاپے مارے۔ ڈ ا کٹر صاحب1991ء میں مظفرآباد ہجرت کرگئے اور وہی رہائش اختیارکی۔ یہاں انہوں نے تحریک کے تئیںاپنی ذ مہ داریاں نبھائیں۔ 2005میں فضل حق قریشی نے انہیں اپنی تنظیم کا نمایندہ بنایا۔ اس کے علاوہ بطور معالج بھی ڈاکٹر اعلیٰ نے اپنی خدمات وقف رکھیں۔ ایک ہسپتال میں وہ ہر روز تقریباً تین سوکشمیری مریضوں کا علاج ومعالجہ کرتے۔ انہوں نے اپنی صحت پر کبھی دھیان نہ دیا حالانکہ انہیں پپٹک السر کا عار ضہ لاحق تھا۔ رفتہ رفتہ ڈاکٹر صاحب کی صحت خراب ہوتی گئی ۔ 23 ؍مئی 2017 ء کو انہوں نے مظفر آباد کے ایک ہسپتال میں وفات پائی اور مظفرآباد کے مقامی قبرستان میں دفن ہوئے۔ ڈا کٹر صاحب مرتے دم تک اپنے سیاسی موقف پر قایم رہے۔وہ انتہائی شریف النفس اور بے لوث انسان تھے ، ساد ہ لوحی اورخوش اخلاقی ان کی فطرت ثانیہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ماتھے پر کبھی شکن نہ دیکھی گئی۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں ۔
فون نمبر9419009648