غلام احمد میرشہرخاص ہفت یاربل صفا کدل میں 1928ء کو پیدا ہوئے۔ میٹرک پاس کرتے ہی محکمہ بجلی میں ملازمت احتیار کرلی لیکن 1945 میں ملازمت چھو ڑ کر نیشنل کانفرنس کے ساتھ منسلک ہوئے۔ اگلے سال اُنہوں نے کشمیر چھوڑ دو تحریک میں بھر پور حصہ لیا۔
۱۱؍اپریل ء ۱۹۴۷ کو پنڈت پریم ناتھ بزاز پر گولی چلائی گئی تو غلام احمد میر اور اُن کا ایک ساتھی گر فتار ہوئے اور ان دونوں پر اقدام قتل کا مقدمہ چلا۔ شیخ محمد عبداللہ کے ایمرجنسی ایڈ منسٹریٹر بننے کے فوراً بعد انہیں بری کیا گیا۔ مر حوم غلام نبی ہاگرو ایڈوکیٹ کے مطابق جیل میں میر کو خود اپنے آپ کوسمجھنے کا موقع ملا،خوب مطالعہ کیا ، جب رہا ہوئے تو تحریک کے نشیب و فراز سمجھ چکے تھے۔ جیل میں ہی ان کو سمجھ میں آیا کہ نیشنل کانفرنس کی قیادت نے اہم موقعوں پر بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں۔ وہ اپنے آپ کو نیشنل کانفرنس میں اجنبی محسوس کرنے لگے۔ کچھ وقت تک اُنہوں نے اپنے کاروبار پر دھیان دیا لیکن پھر محی الدین قرہ کی پولیٹیکل کانفرنس جس کا قیام سہہ یار صفا کدل میں عمل میں لایا گیا تھا ، میں شامل ہوئے۔ محی الدین قرہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ کشمیر کو قدرتی طور پاکستان کا حصہ بننا چاہئے تھا۔ قرہ اور میر کو جاننے والے کہتے ہیں کہ یہ سیاسی عقیدہ میر کا تھا جسے قرہ نے لوگوں کے سامنے رکھا۔ حکام نے میر اور قرہ دونوں کو گرفتار کیااور دو سال تک جیل میں رکھا۔ میر لوگوں سے ملتے تو انہیںپاکستان کی اہمیت پر درس دیتے۔ وہ پھر سے گرفتار کئے گئے اور سات سال تک پابند سلاسل رہے۔ 1963 ء میں موئے مقدس کے سرقہ نے پوری وادی میں ہلچل پیدا کردی اور تمام سیاسی و مذہبی تنظیموں پر مشتمل ایکشن کمیٹی بنائی گئی۔ میر اس کے آرگنائزر بنے۔ یہ کمیٹی 1965ء تک قایم رہی لیکن میر محی الدین قرہ سے مطمٔن نہ تھے۔ 7مارچ 1965 ء کو یوم حق خود ارادیت پر میر نے قرہ پر بنیادی موقف سے انحراف کا الزام لگاکر کہا کہ :’قرہ کو تنظیم کی نمایندگی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔‘‘ اس کے فوراً بعد شیخ محمد عبداللہ کو حج سے واپسی پر گرفتار کیا گیا۔ حکام نے عوامی جلسوں پر قد غن لگانے کے لئے دفعہ 144 کا نفاذ عمل میں لایا، میر اور ان کے ساتھیوں نے ستیاگرہ شروع کیا۔ وہ لال چوک میں جمع ہوتے، چھوٹا موٹا جلسہ کرتے اور اس کے بعد گرفتاری دیتے۔ 5 جون1965ء کو میر اور اس کے پانچ ساتھیوں نے گرفتاری پیش کی، اس سے پہلے میر نے تقریر میں کہا :’’ حکام نے جلسے جلوسوں پر پابندی لگا کر گاندھی کی تعلیمات کو روندھ ڈالا ہے۔شیخ محمد عبداللہ کو گر فتار اور بیگم عبداللہ پر پابندی لگا کر حکام نے ہمیں سول نافرمانی کے لئے مجبو ر کیا ہے۔ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ عوامی ایکشن کمیٹی کے پروگراموں کو کامیاب بنائیں۔ میں شام لال یچھا کو اپنا قائمقام بناتا ہوں۔ یہ بہت دیانتدار ہیں ، اُن کی اطاعت کرنا، کشمیر ہمارا ہے اور اس کا فیصلہ صرف ہم کر سکتے ہیں‘‘۔1970 ء میں شیخ محمد عبداللہ نے پیپلز کنونشن کا انعقاد کیا تو میر کو دال میں کچھ کالا لگا۔ اُنہوں نے اپنے حدشات کا اظہار کیا جس پر کنونشن کے سیکرٹری محی الدین شاہ نے 6مئی کو میر صاحب کو خط لکھ کر ’ ’ اندرونی آ یئنی سٹلمنٹ‘‘ کی وضاحت کی ۔ میر صاحب نے کنونشن سے خطاب میںمکمل فوجی انخلاء کی مانگ کی اور کشمیر فروٹ انڈ سٹری اور کراچی بندرگاہ کہ اہمیت پر روشنی ڈالی جسے کافی سراہا گیا۔ میر صاحب29 ؍ مئی1982 ء کو انتقال کر گئے۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں
فون نمبر9419009648
تاریخ کی گواہی
مسلمان ہی محب وطن
زاویۂ نگاہ
شمس تبریز قاسمی
عالم اسلام کی تاریخ میں اندلس کے بعد ہندوستان کا تذکرہ مسلمانوں کیلئے سیاہ باب کی شکل اختیار کرتاجارہاہے ،جس ملک میں مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک حکمرانی کی ،جنہوں نے ہندوستان کے رقبہ کو وسیع ترکیا ،جنہوں نے کبھی مذہب کے نام پر سیاست نہیں کی ،جنہوں نے مندروںدونوں کو مان دیا، جنہوں نے مذہب اور امور سلطنت کو خلط ملط نہ کیا،جنہوں نے حکومت ، اقتدار،طاقت ،فوج او ردولت سب کچھ ہونے کے باوجود ہندوستان کو مختلف مذاہب کا مسکن بنائے رکھا،کسی کے ساتھ مذہب کے نام پر زیادتی اورنا انصافی نہ کی ،کسی کا مذہب بہ جبر تبدیل نہیں کرایا ، کسی کو نعرہ تکبیر لگانے کیلئے نہیں کہا، آج انہی مسلمانوں سے ہندوستان میں حب الوطنی کی سرٹیفیکٹ مانگی جارہی ہے ،ملک سے ان کی وفاداری کا ٹیسٹ لیاجارہاہے ، یوم آزادی پر ان کی وطن سے محبت کا انوکھاامتحان لیارہاجاہے۔
ہندوستان میں مختلف مذاہب کے لوگوں نے حکمرانی کی ہے لیکن سب سے طویل دوراقتدار مسلمانوں کارہاہے ،1206ء تا 1857 ء بلاشرکت غیرے مسلمان یہاں کے حاکم رہے ۔اس سے قبل بھی سندھ اور اطراف کے علاقے میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی تھی، یوں کہہ لیجئے ایک ہزار سال تک اس سرزمین پر مسلمانوں نے حکومت کی ۔ اس دور میں مسلمانوںکا رعب ودبدبہ تھا، ہندوستان سمیت ایشاء کے اکثر خطے پر مسلمانوں کی حکومت تھی،یورپ اور افریقہ میں بھی مسلمان فتح ونصرت کا علم بلند کرچکے تھے ،ہندوسکھ سبھی ان کے زیر اقتدار تھے ،مسلم حکمرانوں کے پاس ہر طرح کی طاقت تھی ،وہ چاہتے تو طاقت کا بے جا استعمال کرکے اسلام کے علاوہ باقی مذاہب ماننے والوں کا نام ونشان مٹاسکتے تھے ،قیصر وکسریٰ جیسی قتل وغارت کی تاریخ دہرا سکتے تھے ،روم اور فارس جیسی حیوانت کا مظاہرہ کرسکتے تھے، شہر کا شہر تاراج کرسکتے تھے ،انسانی لاشوں کا انبارلگاسکتے تھے ،اس وقت کوئی عالمی ادارہ بھی نہیں تھا ،انہیں کوئی ٹوکنے والا تھا اور نہ ہی دنیا کا کوئی اور ملک ان کے اس اقدام کی مخالفت کرسکتا تھا ،لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس سلسلے میں کبھی سوچا بھی نہیں ۔اقتدار میں انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ ہندئووں کو بھی شریک رکھا، انہیں اپنا راز دار بنایا،حکومتی عہدے تفویض کئے، کبھی کسی مذہب معاملے میں مداخلت نہ کی ، بھولے سے بھی ہندئووں کو ان کے عقیدے اور رسم ورواج کو چھوڑنے پر مجبور نہ کیا ،کبھی مذہب کے نام پر کسی کوخوف زدہ نہ کیا۔ آج کے جمہوری ہندوستان میں مذہب کے نام پر قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے ،جس ملک کا آئین سیکولرزم پر مبنی ہے ،جہاں جمہوریت رائج بتائی جاتی ہے ، جہاںآئینی طور پر مسلمان سمیت تمام مذاہب کو یکساں حقوق حاصل ہیں،اس وشال ملک میں مسلمانوں کوان کے مذہب سے دورکرنے اور ہندو مذہب کو اپنانے پر مجبور کیا جارہاہے ۔ہندوستان ایک سیکولر اسٹیٹ ہے ،تمام مذاہب کو یکساں حقوق حاصل ہے ،مکمل مذہبی آزادی ہے ،آئین اور مذہب کے درمیان کہیں پر کوئی ٹکرائو نہیں ہے لیکن موجودہ بھاجپا سرکار کی مکمل کوشش آئین اور مذہب کو آپس میں ٹکرانے اور مسلمانوں کو عدم تحفظ کی آگ میں جھلسا دینا ہے ۔بابا بھیم رائو امبیڈکر کے تشکیل کردہ آئین کے مطابق مسلمانوں سمیت تمام مذاہب کے پیروکاروں کو آئین میں مکمل آزادی ہے ،ایسے میں حکومت باربار مسلمانوں سے وندے ماترم ،جے شری رام اوراس طرح کے نعروں کو ایشو بناکرمسلمانوں کو تنگ طلب کرتی ہے ۔ ممکن ہے حکومت آئندہ دنوں میں وندے ماتر او رجے شرم کے الفاظ کو حب الوطنی کے لئے معیار قراردیکر آئین کا حصہ بناڈالے۔
اسلام اور ہندومت میں سب سے بڑا اور نمایاں فرق یہی ہے کہ اسلام میں شرک کی ذرہ برابر کوئی گنجائش نہیں ہے ،اللہ کے سواکوئی ذات لائق پرستش نہیں ہے ،جب کہ ہندئودھرم میں ایسی کوئی بندش نہیں ہے ،ان کے یہاں کئی لاکھ بھگوان یا خدا ہیں،ہر نفع بخش شئے ان کے عقیدے کے مطابق معبود ہے ، اسی فہرست میں’’ملک‘‘بھی شامل ہے جس کی حیثیت ان کے یہاں معبود کی جیسی ہے ۔بی جے پی کے ترجمان سنبت پاتر ابھی گذشتہ دنوں آج تک کے ایک ڈبیٹ میں یہ اقرار کررہے تھے کہ ملک ہندوستان ہمارا بھگوان ہے ، یہ ہمیں سب کچھ دیتاہے،وندے ماترم پر تنازعہ بھی اسی قبیل سے ہے ،سنگھ کو معلوم ہے کو مسلمان ایک اللہ کے سوا کسی کی پرستش نہیں کرسکتے اور اگر وہ اللہ کے سوا کسی اور کو معبود تسلیم کریں یا کسی اورکو خدائیت میں شریک ٹھہرائیں تو ان کا ایمان ختم ہوجائے گا ۔اس لئے یہ لوگ جان بوجھ کر وندے ماتر م مسلمانوں سے کہلوانے پر مصر ہیں کیوں کہ اس گیت میں ملک کو معبود کہاگیا ہے۔
حب الوطنی اور وطن پرستی کا معیار الفاظ اور نعروں سے طے نہیں ہوتاہے ،بلکہ عمل سے ثابت ہوتاہے کہ کون کتنا بڑا دیش بھگت ہے ،کس نے یش کیلئے کیا قربانیاں دی ہیں،اس لئے یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہ ملک مسلمانوں کا ہے،ان مسلمانوں نے یہیں جنم لیاہے ،اسی حب الوطنی اور وطن پرستی کے جذبہ نے انہیں بے سروسامانی کے عالم میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے پر آمادۂ پیکار کیا ،جب پورا ہندوستان انگریزی اقتدار میں رہنے کا عادی ہوچلاتھا مسلمانوں اور علمائے اسلام نے بغاوت کی صور پھونکی ،انگریزی اقتدار کوختم کرنے کیلئے کئی طرح کی تحریکیں چلائیں ،اس کی پاداش میں لاکھوں لوگوں کو بشمول علماء تختہ دار پر لٹکنابھی پڑا۔انگریزمورخ ٹامسن کے مطابق چاندنی چوک سے جامع مسجد تک ہر درخت پر لاشیں لٹکی ہوئی ملیں، برادران وطن بہت بعد میں اس جنگ کا حصہ بنے ،گاندھی 1915ء میں افریقہ سے واپسی کے بعد جنگ آزاد ی کی مہم میں شریک ہوئے ، ہندومسلم یکجہتی کے لئے سبھوں نے انہیں اپنا لیڈر تسلیم کیا اور اس طرح یہ ہندوستان 15؍ اگست 1947 ء کو آزاد ہوا لیکن 70 ؍سال میں مسلمانوں کو اقتدار واختیارسے دوررکھنے کے بعدسال رواں انہیں آزادی کی جنگ لڑنے کی سب بڑی سزا یہ ملی کہ جن لوگوں نے ملک کے خلاف انگر یزوں کا ساتھ دیا ،جس تنظیم نے تحریک آزاد ی کی مخالفت کی ،جس نے گاندھی کا قتل کرایا ،وہی تنظیم آج مسلمانوں سے آزادہندوستان میں مسلمانوںکی حب الوطنی کا ثبوت مانگ رہی ہے اوران سے یوم آزادی کی تقاریب منعقد کرنے،ترنگالہرانے اور وندے ماترم گانے کو کہہ رہی ہے۔ واہ گردش ِ زمانہ!