۔1993ء کی ایک صبح کو فوج نے ملک یار فتح کدل شہر خاص کا محاصرہ کیا۔ گھر گھر تلاشی کے بعد جوانوں کی مخبر بردار گا ڈیوں کے سامنے پریڈ کرائی گئی۔ جب فوج چلی گئی تو ایک بزرگ نے لوگوں سے کہا کہ’’ بھارت سے مراعات حاصل کرنا چھوڈڑدو اور ایک ہوکر آزادی کے لئے لڑو‘‘۔ یہ70 کی دہائی کے معروف حریت پسند صاحبزادہ محمد امین تھے۔ امین صاحب اپنے والد ماجد صاحبزادہ محمد حسین کے سجادہ نشین بھی تھے، اس لئے لوگ انکی کافی عزت کرتے تھے۔ امین صاحب 1941ء میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم بسکو اسکول سے حاصل کی۔ ان کے گھر میں معتدد شکاری بندوقیں تھیں ،اس لئے امین صاحب کو شکار کا کافی شوق تھا۔ وہ اکثر دور دراز علاقوں میں شکار کے لئے نکل جاتے اور یہ شوق آخری عمر تک بر قرار رہا۔ موصوف ایف اے پاس کیا تو مولوی فاضل کا ا متحان بھی دیا۔ انہوں نے روزگار کے لئے ٹھیکہ داری شروع کی لیکن اس سے ان کے والد خوش نہ تھے۔اسی دوران وہ اپنے دوست افتخار احمد پال کے ہمراہ تحریک آزادیٔ کشمیر سے جڑ گئے۔ موئے مقدس تحریک کے دوران یہ دونوں جلسے جلوسوں میں حصہ لیتے رہے اور بعد ازاں عبدلرشید کابلی کی یوتھ لیگ میں شامل ہوگئے ۔ جب 1968ء میں یہ تنظیم دو حصوں میں بٹ گئی تو امین صاحب اور پال صاحب کابلی گروپ کے ساتھ ہی رہے۔ وہ اسی سال پال صاحب، نذ یر احمد وانی اور محمد اشرف منہاس کے ساتھ پاکستان چلے گئے جہاں ان کا والہانہ استقبال کیا گیا لیکن انہوں نے ہر حکم ماننے سے صاف انکار کیا اور واپس چلے آئے ۔اُن ہی دنوں نواکدل شہر خاص میں ایک بی ایس ایف اہلکار کو مار ڈالا گیا تو پولیس ان چاروں کی سخت نگرانی کرنے لگی۔ پولیس کو کسی طرح ان کے پاکستانی دورے کا بھی پتہ چلا۔منہاس اور پال صاحب کو گرفتار کیا گیا لیکن امین صاحب روپوش ہوگئے ، وہ ڈیڑھ سال تک روپوش رہے۔ اس دوران ان کے گھر پر کئی چھاپے مارے گئے۔ان کے چھوٹے بھائی جو ساتویں جماعت کے طالب علم تھے ،کو گر فتار کیا گیا لیکن پولیس کا یہ ہتھکنڈہ بے کار گیا۔ امین صاحب نے سرینڈر نہ کیا اور پولیس کو ان کے کم سن بھائی کو رہا کرنا پڑا۔ پولیس نے شہر میں جگہ جگہ پوسٹر چسپاں کئے جن میں ’’Wanted dead or alive‘‘ لکھا تھا۔ امین صاحب اس کے باوجود بھی پولیس کے ہاتھ نہ آئے لیکن اعلیٰ پو لیس عہدیدار پیرغلام حسن شاہ نے انہیں ایک رشتہ دار کے رسم قل کے موقع پرحراست میں لے لیا، قید وبند میں ان کاانسانیت سوز ٹارچر کیا گیا ، بالآخر ڈیڑھ سال کے لئے جیل بھیج د یا گیا۔ رہائی کے بعد انہوں نے محاز رائے شماری میں کا م کرنا شروع کیا۔ جب جے پرکاش نارائین کشمیر آئے تو محاذ کے کارکنان سے کہا گیا کہ رائے شماری کے نعرے بلند نہ کریں لیکن امین صاحب اور ان کے ساتھیوں نے اس کے برعکس عمل کیا۔ قیادت کی دوغلی پالیسی سے مایوس ہوکر انہوں نے کچھ دیر سیاست سے سنیاس لیا لیکن اس کے باوجود بھی پولیس ان کی نگرانی کرتی رہی۔ 1975ء کے ایکارڈ کے بعد امین صاحب نے سیاست سے کنارہ کشی کر کے اپنے آپ کودین اسلام کی اشاعت کے لئے وقف کردیا۔ وہ ریاست کے دور دراز علاقوں خاص کر ڈوڈہ آتے جاتے اور لوگوں کو فلاحی کاموں کی طرف بلاتے۔ 1986ء میں وہ اپنے والد ماجد کے سجادہ نشین بنے۔ ہزاروں لوگ ان کے پاس روحانی فیض کے لئے آتے۔ وہ بڑے نڈر تھے۔ 90ء کی دہائی میں جب سب لائسنس یافتہ لوگوں نے اپنی بندوقیں تھانوں میں جمع کرائیں، امین صاحب نے ایسا نہ کیا بلکہ کبھی کبھی شکار پر جاتے۔ موصوف 2001ء میں فوت ہوئے۔ آخری ایام میں وہ کشمیر کی آزادی کے لئے رو رو کر دُعا ئیں مانگتے۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں ۔
فون نمبر9419009648