افتخار احمد پال 1938ء میں سرینگر کے ایک پنجابی خاندان میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد کرم الٰہی پال کو قائد اعظم محمد علی جناح کے کپڑے سینے کا شرف حاصل تھا۔ افتخار صاحب نے ابتدائی تعلیم سرینگر کے بسکو اسکول میں پائی۔ وہ فٹ بال، ہاکی اور تیراکی میں دلچسپی رکھتے تھے۔موئے مقدس تحریک میں اُنہوں نے بھر پور حصہ لیا اور ا گلے سال انور عشائی اور عبدالرشید کابلی کی یوتھ لیگ کے ممبر بن گئے۔ 1968 میں جب یوتھ لیگ ینگ مینز لیگ اور یوتھ لیگ میں بٹ گئی تو افتخار صاحب رشید کابلی کی پاکستان نواز یوتھ لیگ میں گئے۔ اُسی سال وہ اپنے ساتھیوں نذیر احمد وانی ،صاحبزادہ محمد امین اور محمد اشرف منہاس کے ہمراہ پاکستان گئے ۔ جب وہ واپس لوٹے تو پولیس کو اس خفیہ ودرہ ٔ پاکستان کا پتہ چلا تھا۔ منہاس کو سب سے پہلے گرفتار کیا گیا، پال صاحب پہلے سے ہی پولیس کی نظروں میں تھے۔ اسی دوران نواکدل میں بی ایس ایف کے سپاہی کا قتل کیا گیا۔ 16؍ نومبر پال صاحب کی شادی تھی لیکن15 ؍ نومبر کو وہ گرفتار کئے گئے۔اُن کے والد نے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے اُنہیں چار دن کیلئے رہائی دلائی۔ پال صاحب کی شادی ہوئی تو چار دن بعد پولیس نے تفتیش کے لئے بلایااور آئی بی کے ایک افسر نے اُن سے نواکدل قتل کے بارے میں پوچھ تاچھ کی۔ پال صاحب اپنی ڈائری میں اس تفتیش کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’آئی بی والوں نے مجھے بی ایس ایف سپاہی کے قتل کے بارے میں پوچھا لیکن مجھے اس بارے میں کوئی خبر نہ تھی، اُنہوں نے مجھ پر یقین نہ کیا ۔ اس کے بعد مجھے پاکستان دورے کے بار ے میں پوچھا گیا، میں نے انکار کیا۔ اس پر میرے ایک ساتھی اور رشتہ دار کو لایا گیا جس نے اُنہیں سب کچھ بتا دیا تھا لیکن میں نے پھر بھی انکار کیا۔ اس پر پولیس والوں نے قرآن پاک لایا اور مجھ سے اس پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانے کو کہا، میں ایسا نہ کر سکا اور صاف صاف سب کچھ بتا دیا۔ چناںچہ ہمیں سنٹرل جیل بھیج دیا گیا۔‘‘
جیل میںاُنہوں نے پیرول کے لئے درخواست دی جس میں اپنی بیوی کی بیماری کا ذکر کیا ، درخواست حکام تک نہ پہنچ پائی۔ ایک سال نظر بندی کے بعد جب انہیں رہا کیا گیا تو محاذ رائے شماری کے رکن بن گئے۔ مجاہد منزل میں جب پیپلز کنونشن ہو رہا تھا تو اُنہوں نے جے پرکاش نارائن کی آمد پر آزادی کے حق میں نعرے لگائے۔ پال صاحب پر پولیس کی نگرانی کبھی ختم نہ ہوئی۔ 1989ء میں جب عسکری تحریک شروع ہوئی تو اُن پر نگرانی مزید سخت کی گئی۔ اُنہوں نے کبھی شناختی کارڈ کا استعمال نہ کیا، وہ کہتے تھے کہ اپنے ہی ملک میں شناختی کارڈ نہیں رکھوں گا۔ اس پر کئی بار فوجیوں کے ساتھ بھڑ گئے۔ 2010ء میں 16 ا پریل کے دن جب وہ اپنے بیٹے کی شادی کے بعد جموں سے سر ینگر آرہے تھے تو سڑک حادثے میں شدید زخمی ہوئے اور2مئی کو وفات پاکرآبائی مقبرہ واقع مگر مل با غ میں سپرد خاک کئے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں فون نمبر9419009648