اگلے چند سال منشی صا حب کے لئے صبر آزما ثابت ہوئے، ان کو محسوس ہوا کہ قیادت اپنے اصولی موقف سے ہٹ رہی ہے۔ جب محاذی قیادت نے 1969 میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کی بات کی تو منشی صاحب نے علم بغا وت بلند کیا۔ منشی صاحب اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں: ’’ شیخ محمد عبداللہ اور افضل بیگ محاذ کے بنیادی موقف سے ہٹ رہے ہیں۔ 22 مارچ1969ء کو ا یگر یکٹو کونسل کی میٹنگ میں انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ لیا گیا جن کا ہم آج تک بایئکاٹ کرتے آرہے ہیں۔ میں نے اس کی زبردست مخالفت کی۔ محا ذکے بیشتر ممبران نے مجھ سے اتفاق کیا۔ میں برابر اس کی مخالفت کرتا رہوں گا۔ مولانا فاروق اور مولانا عباس انصاری میرے پاس آئے اور اپنا تعاون پیش کیا۔ دیکھتے ہیں اگلی نشست میں کیا ہوگا‘‘۔منشی صاحب نے میٹنگ سے واک آوٹ کیا اور محاذ کے ممبران سے تعاون کی درخواست کی لیکن کسی نے ان کی بات نہ سنی۔ صوفی محمد اکبر نے بھی اُن سے تعاون کرنے سے انکار کیا۔
منشی صاحب نے آخر کار 7؍اگست 1969 ء کو پریس کانفرنس میں کہا کہ محاذ کے کچھ لوگ الیکشن کو حق خود ارادیت سے جوڑ رہے ہیں لیکن انتخابات استصواب رائے کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ کچھ لوگ تحریک کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کچھ اہم لوگ جن میں خواجہ عبدالغنی گونی، غلام نبی وانی، علی محمد نایک، غلام محمد بٹ،حاجی محمد سبحان وغیر شامل ہیں کو محاذ سے نکال دیا گیا ہے۔ اگر کسی نے محاذ کے موقف کے خلاف الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ محاذ انتخابات میں حصہ لینا چاہتا ہے۔ محاذ زندہ ہے اور اپنی جدوجہد جارہ رکھے گا، ہم اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت رائے شماری چاہتے ہیں‘‘۔
محاذی قیادت نے منشی صاحب کو غدار قراردیا۔ انہوں نے اپنے ایک بیان جس کوروزنامہ آفتاب نے9 ؍اگست کے شمارے میں شایع کیا گیا، میںکہا کہ ا نتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ 22اور23 مارچ کو لیا گیا تھا،اس پر ممبران سے ووٹ طلب کئے گئے۔ زیادہ تر ممبران جن میں منشی صاحب بھی شامل ہیں، نے انتخابات کے حق میں ووٹ ڈالا۔ اس کے بعد اس پر25؍اور26 مئی کو پھر سے بحث ہوئی۔ ایک بار پھر ووٹنگ ہوئی۔ 196 ممبران میں سے 185 ؍نے الیکشن کے حق میں ووٹ ڈالے۔ اس بار بھی منشی صاحب نے اس کے حق میں ووٹ ڈالا۔ منشی صاحب دو ماہ تک چپ رہے اور آج جب الیکشن میں صرف دو دن باقی ہیں، انہوں نے بیان دیا جس سے صرف کانگریس کو فائدہ ہوا ہے۔‘‘منشی صاحب نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی۔ انہوں نے’’ ہمدرد‘‘ کے 9؍اور 11؍ اپریل کے شماروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صدر اور 21 ممبران نے الیکشن کے حق میں ووٹ ڈالے اور صرف 9؍ ممبران نے اس کی مخالفت کی۔ اسی اخبار نے 12؍ اپریل کو لکھا کہ زیادہ تر ممبران نے اس کی مخالفت کی۔ ان کا ماننا ہے کہ اس طرح مسلٔہ کشمیر بھارت کا اندرونی مسلٔہ بن جائے گا۔‘‘
محاذ کی قیادت ان بیانات سے سخت پریشان ہوئی۔ انہوں نے منشی صاحب کو محاذ سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ چناںچہ افضل بیگ نے 3؍ ستمبر1969 ء کو انہیں اگلے حکم تک محاذ کی ممبرشپ سے معطل کردیا۔ اس کے جواب میں منشی صاحب نے ایک پمفلٹ ’’ندائے حق‘‘ شائع کیا جس میں انہوں نے محاذ کی قیادت کی مکمل نقاب کشائی کی۔ منشی صاحب کے دونوں گردوں میں تکلیف تھی۔ وہ اسی بیماری سے1969 ء میں فوت ہوئے۔ان کو نوپورہ میں ہی سپرد خاک کیا گیا۔ شیخ محمد عبداللہ اور افضل بیگ نے ان کے چہارم پر منشی صاحب کی سیاسی و قومی خدمات کا اعتراف کیا۔ ( ختم شد)
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں ۔
فون نمبر9419009648