غلام محمد جان 1915ء میں شہر خاص حمام بل خانیار کے محمد جان کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کر کے جان صاحب نے جب میٹرک پاس کیا اس وقت تحریک آزادی زور و شور سے جاری تھی۔ انہی دنوں مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کیا گیا اور جان صاحب اس کے ممبر بن گئے۔ وہ شیخ محمد عبداللہ سے بہت متاثر تھے اور د ن رات ایک کرکے تنظیم کے لئے رائے عامہ ہموار کرتے۔ شیخ محمد عبداللہ بھی انہیں بہت پسند کرتے۔ 1646ء میں جب کشمیر چھوڑ دو تحریک شروع ہوئی تو جان صاحب بہت زیادہ سرگرم ہوگئے کہ پولیس انہیں ہر جگہ تلاش کرنے لگی۔ ان ہی دنوں وائس رائے ہند کا کشمیر دورہ طے پایا۔ حکام ان کادریائی جلوس نکالنا چاہتی تھی۔ قیادت نے جان صاحب کو ڈکٹیٹر مقرر کرکے اس دورے کو ناکام بنانے کا کام سونپا۔ وائس رائے کی آمد سے کچھ دن قبل جان صاحب نے میر سید علی ہمدانی ؒ کی خانقاہ میں لوگوں سے خطاب کر کے لوگوں سے وائس رائے کا دورہ ناکام بنانے کی تاکید کی۔ انہوں نے علی الاعلان کہااس دورے کو ناکام بناؤ ا گر چہ تمہیں جہلم میں بھی کودنا پڑے ۔لوگوں پر اس تقریر کا خاصا اثر بھی ہوا۔ شہر میں ہلچل مچ گئی کہ وائس رائے کو اپنا دورہ ملتوی کرنا پڑا۔ اس کے ساتھ ہی جان صاحب گرفتار ہوئے۔ عدا لت نے ان کو چھ ماہ قید اور 250 رو پے جرما نے کی سزا سنائی۔ جیل سے رہا ہوتے ہی وہ پھر سے تنظیمی کاموں میں لگ گئے۔ کچھ دن بعد کشمیر میں بھارتی فوج کی آمد شروع ہوئی اور شیخ محمد عبداللہ ریاست کے ناظم اعلیٰ بنے۔ شیخ محمد عبداللہ نے جان صاحب کو پولیس میں سب انسپکٹر بھرتی کر کے جموں میں تعینات کرایا ۔ یہ وقت جموں کے مسلمانوں کے لئے بہت مشکل تھا،ہر جگہ ان کو قتل کیا جا رہا تھا۔ نومبر1947 ء میں خاص کر مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ جان صاحب نے نہتے اور کمزور مسلمانوں کی ہر ممکن کوشش کی لیکن جموں کی زمین ان کے لئے جیسے تنگ ہوچکی تھی۔ جان صاحب اپنے آپ کو کوسنے لگے اور آخر کار ضمیر کی آواز سن کر پولیس کی نوکری سے احتجاجاً مستعفی ہوئے۔شیخ محمد عبداللہ کو ان کا استعفیٰ بہت گراں گزرا لیکن ان کے احتجاج کا نوٹس لینے کے بجائے انہوں نے اعلانیہ کہا کہ ’’مامہ جورا‘‘ جیسے اور ہزاروں جوان میرے لئے کام کرنے پرتیار ہیں۔ بہر حال جان صاحب وادی کے ان گنے چنے مسلمانوں میں ایک ہیں جنہوں نے جموں کے مسلمانوں کے قتل عام پر احتجاج کیا۔اوروں کی طرح چپ رہ کر وہ بہت ترقی کر سکتے تھے لیکن وہ تحریکی مزاج کے تھے اس لئے قتل عام کے خلاف بے خوف آواز اٹھائی ۔ جموں سے واپسی پر انہوں نے مسلم کانفرنس میں شرکت کی۔ کچھ ہی دنوں میں انہیںوار کونسل کا ممبر بنایا گیا ، یوںایک بار پھر جان صاحب نے اپنے آپ کو تحریک کے لئے وقف کردیا۔ وہ الحاق پاکستان کے زبردست حامی تھے ،ان کے رشتہ داروں کا بھی ماننا ہے کہ وہ پاکستان میں کافی مقبول تھے۔
جان صاحب نے مسلم کانفرنس کے سرکردہ کارکن رحیم وازہ کو پاکستاں بھیجنے میں کلیدی رول نبھایا جس سے میر واعظ یوسف شاہ کو کافی مدد ملی۔ اس کے علاوہ انہوں نے پاکستان میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کرکے مہاجرین کشمیرکی بہت مدد کی۔جان صاحب نے1952 ء میں وفات پائی اور آبائی مقبرہ حمام بل میں دفن ہوئے۔
………………..
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں ۔
فون نمبر9419009648