میر عبدالعزیز 1924 میں رام باغ سری نگر میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم نٹی پورہ کے ایک اسکول سے حاصل کی۔ میر صاحب نے میٹرک ایس پی اسکول سے پاس کیا اور گریجویشن امر سنگھ کالج سے کی۔ کالج کے دنوں سے ہی وہ ہفت روزہ’’ ملت‘‘ اور’’ جواہر‘‘ کے لئے لکھنے لگے۔ یہ دونوں جریدے سرینگر سے شائع ہوتے تھے۔ ان ہی دنوں قائد اعظم محمد علی جناح سرینگر کے دورے پرآئے۔ جواں سال میر ان سے مل کر کافی متاثر ہوئے۔ دن گزرتے گئے ، میر عبدالعزیز اب طالب علمی کی زندگی سے سے فراغت پا چکے تھے۔ اُنہوں نے باضابطہ طورصحافت کو اپنا پیشہ بنایا اور پریم ناتھ بزاز کے زیر ادارت ’’ہمدرد‘‘ میں ملازمت اختیار کی۔ صحافت نے ان کے ذہن کے دریچے کھول دئے اور اُنہوں نے مسلم کانفرنس میں شمولیت کی۔ اُس وقت میر واعظ محمد یوسف شاہ صاحب مسلم کانفرنس کے سر براہ تھے۔ ٖٖ 14 اگست 1947 کو جب پاکستان معرض ِوجود میں آیا تو میر نے شہر خاص سرینگر کی مر کزی جامع مسجد میں دھواں دار تقریر کی۔ یہ جمعتہ الودا ع کا دن تھا اور وادی کے طول وعرض سے لوگ یہاںآئے تھے۔ میر نے ان کو پاکستان بننے پر خوشی منانے کو کہا۔ کچھ ماہ بعد جب شیخ محمد عبدللہ نے ایمرجنسی انتظامیہ کی باگ ڈور سنبھالی تو میر کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کئے گئے۔ میر گرفتاری سے بچنے کے لئے روپوش ہوئے لیکن آ خر ان کو جلا ئے وطن کیا گیا۔ وطن سے نکالے جانے کا غم تو تھا ہی لیکن میر صاحب نے اپنا پورا وقت تحریک اور تنظیم کے لئے وقف کر دیا۔
پاکستان میں وہ مسلم کانفرنس کے جنرل سیکرٹری بنے لیکن پاکستان کی کشمیر پالیسی پر تنقید کرنے کی پاداش میں ان کو تین ماہ تک جیل میں رکھا گیا۔ رہائی کے بعد اُنہوں نے اپنا ہفت روزہ ’’انصاف‘‘ شا ئع کیا۔ اُنہوں نے جلد ہی انگریزی ہفت روزہ’’ ٹایمز آف کشمیر ‘‘بھی جاری کیا۔ اُن کے مضامین کشمیر کے روزناموں خصوصاً’’ گریٹر کشمیر‘‘ میں شائع ہوتے رہے۔ ایک دن آرمی کی خفیہ تنظیم ایم آئی کا اہل کار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے دفتر میں داخل ہوا۔ راقم الحروف اُن دنوں موقر جریدے کے معاون مدیر تھے۔ اُنہوں نے مجھ سے میر صاحب کے بارے میں پوچھا۔ ظاہر ہے کہ میر صاحب کے مضامین سے ان کے لئے خاصے تکلیف دہ تھے۔ ان کے سوال پر میری مسکراہٹ اُن پر گراں گزری لیکن جب اُن سے کہا گیا کہ میر صاحب کو1947 میں پار جلا وطن کیا گیا تھا تو وہ بھی اپنی مسکرا ہٹ روک نہ سکے۔ حکومت پاکستان نے میر صاحب کو کئی اعزازات سے نوازا لیکن انہوں نے ہمیشہ حق بات کہی۔ 1965کی جنگ کے بعد جب کشمیریوں کو قربانی کا بکرابنانے کی کوشش کی گئی تو میر صاحب سامنے آگئے اور کشمیریوں پر لگائے جانے والے الزامات کی تردید کی۔اُلٹا انہوں نے پاکستانی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ اُن کے مطابق اس جنگ کے لئے پاکستان نے پوری تیاری نہیں کی تھی۔ اپنے ایک مضمون میں ا نہوں نے لکھا کہ جن کو کشمیر بھیجاگیا اُن کو کشمیر کے بارے میںسرے سے ہی کوئی جانکاری نہ تھی۔ میر صاحب کہنہ مشق شاعر اور مصنف بھی تھے۔ کشمیری اور اردو میں انہوںنے اپنا قلمی سرمایہ باقیات الصالحات کے طور چھوڑا۔ لبریشن فرنٹ کے اشفاق مجید وانی کی دلیری اور اخلاص مندی پر بھی انہوں نے ایک نظم کہی ہے۔ میرصاحب مزاجاً بذلہ سنج اور نکتہ ور تھے۔ آپ نے فروری 2002ء کو راولپنڈی میں وفات پائی اور وہیں سپرد خاک کئے گئے۔ ان کے ایک جواں سال فرزند میر توقیر شباب میں اللہ کوپیارے ہوگئے جس نے ان کو توڑکے رکھا۔ ان کے انتقال پر پاکستان بھر میں مقیم کشمیریوں میں غم والم کی لہر دوڑی اور ہزاروں ہم وطنوں نے ان کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔ جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی نے اُن کی تحریکی خدمات کے اعتراف میں اُن کو رابرٹ تھارپ ایوارڈ سے نوازا۔
…………
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں ۔
فون نمبر9419009648