18فروری 1993ء کی شام بھی خونین ثابت ہوئی۔اس روز نامور معالج اور حقوق انسانی کے علمبردار ڈاکٹر فاروق عشائی اپنی کار میں گھر جارہے تھے، ان کی بیٹی اور اہلیہ ان کے ہمراہ تھیں ۔ رام باغ پل پر انہوں نے گاڑی کی رفتار کم کر کے اندر والا بلب روشن کیالیکن قر یب سے گولیاں چلیں اور دوسرے ہی لمحے ڈاکٹر صاحب خون میں لت پت نظر آئے۔ ان کی اہلیہ ڈاکٹر فریدہ عشائی نے کمال ہوشیاری اور ہمت کا مظاہرہ کر کے ڈاکٹر صاحب کو اپنے ہی ہسپتال یعنی بون اینڈ جوائنٹ ہسپتال برزلہ سری نگر زخمی حالت میں پہنچایا گیا ۔ ڈاکٹر فریدہ نے ایشیاء واچ سے بات کرتے ہوئے کہا :’’ جیسے ہی ہم رام باغ پُل کی دوسری طرف پہنچے تین گولیاں چلیں۔ ایک ڈاکٹر صاحب کو لگی۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ انہیں گولی لگی ہے، ہم چلتے ر ہے لیکن اگلے بنکر والوں نے ہمیں روکا اور پوچھ تاچھ کی۔ وہ ہم سے پوچھنے لگے کہ گولی کس کو لگی ہے۔ پھر پانچ منٹ بعد انہوں نے ہمیں ڈا کٹر صاحب کو پچھلی سیٹ پر لے جانے کی اجازت دی اور میری بیٹی گاڑی چلانے لگی۔ڈاکٹر منظور عشائی صاحب کا آوپریشن ہوا۔ڈ اکٹر سیٹھی کو بھی بلایا گیا لیکن جب وہ اور عشائی صاحب کے برادر ہسپتال آرہے تھے تو ایک بار پھر ان ہی سی آر پی والوںنے انہیں روکا اور آدھے گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا۔ ڈاکٹر منظور کے مطابق اگر اتنا وقت ضائع نہ کیا جاتا تو آج عشائی صاحب زندہ ہوتے‘‘۔ حکام کے مطابق اس شام سی آر پی بنکر پر عساکر نے گرینیڈ حملہ کیا اور جوابی کارروائی میں ڈاکٹر عشائی جان بحق ہوئے لیکن ڈاکٹر فریدہ نے اس رپورٹ کو قطعی غلط قرار دیا۔ ان کے مطابق اس شام سی آر پی والوں پر کوئی حملہ نہیں ہواتھا۔ ’’ وہ ڈاکٹر صاحب کی گاڑی پہچانتے تھے اور جو گولیاں چلیں وہ صرف اور صرف ڈاکٹر عشائی کو مارنے کے لئے چلائی گئیں‘‘۔ ڈاکٹر عشائی ہر روز گولیوں اور دھماکوں میں زخمی ہوئے افراد کا علاج ومعالجہ کرتے اور اس کا باضابطہ ریکاڑ رکھتے۔ وہ باہر سے آنے والے لوگوں، جن میں ڈپلومیٹ ، صحافی وغیرہ شامل ہوتے کو کشمیر میں ہو رہی حقوق انسانی کی پامالیوں کی خونین داستانیں بیان کرتے۔ حکام اس سے سخت نالاں تھے اور کسی بھی قیمت پر حق کی اس آواز کو خاموش کرنا چاہتے تھے اور 18؍ فروری کو انہوں نے کشمیریوں کے اس مسیحا کو شہید کر دیا۔حکام نے رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئے تحقیقات کا حکم بھی دیا لیکن آج تک تحقیقات مکمل نہ ہو پائی۔ اپنی شہادت کے وقت عشائی صاحب صرف 54 سال کے تھے ۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں
فون نمبر9419009648