نذیر احمد وانی 1949ء میں شہر خاص تارہ بل نواکدل کے غلام رسول وانی کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابھی اسکول میں ہی تھے کہ ان کے والد صاحب کو پش بیک یعنی جلائے وطن کیا گیا۔ یہ واقعہ 26؍ جنوری 1957ء کی رات کو اس وقت پیش آیا جب پولیس نے پولٹکل کانفرنس کے دفتر، لال چوک میں چھاپہ مار کر وانی صاحب کے ساتھ ان کے دو ساتھیوں کو گرفتار کیا۔ نذیر صاحب نے اس کا سخت نوٹس لیا اور ان کی باقی زندگی پر اس کا گہرا اثر پڑا۔ انہوں نے اپنے آپ کو تحریک کے لئے وقف کردیا اور 1960 ء کی دہائی کے آواخر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کرزیر زمین عسکری تنظیم ’’الفتخ‘‘ کا قیام عمل میں لایا لیکن حکام کو اس کی اطلاع ملی اور نذیر صاحب کے ساتھ ساتھ ان کے تمام ساتھی بھی گرفتار ہوئے۔ ان حوصلہ شکن حالات کے باوجود بھی انہوں نے اگریکلچر سائنس میں ڈگری حاصل کی۔ وہ کچھ دیر سرکاری ملازم بھی رہے لیکن تحریکی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں یہ نوکری چھوڑنی پڑی۔کہا جاتا ہے کہ’’ الفتح‘‘ سے پہلے نذیر صاحب اپنے ساتھیوں افتخار پال، صاحبزادہ محمد امین اور محمد اشرف منہاس کے ہمراہ پاکستان گئے۔ وہاں شاید ان کے پلان سے اتفاق نہیں کیا گیا۔ جس وقت نذیر صاحب جیل میں تھے تو باہر ان کے کچھ ساتھی تمام حریت پسندوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اسی دوران محاز رائے شماری کو زندہ درگور کرنے کی سازش بھی ہو رہی تھی۔ ان کے ساتھیوں کی کوششوں سے کشمیر یونیورسٹی میں ایک تاریخی میٹنگ ہوئی جس میں اس وقت کی بیشتر تنظیمیں جن میں ینگ مینزلیگ، اسلامک اسٹوڈنٹس آرگنایزیشن اور یوتھ لیگ وغیرہ شامل تھیں، نے مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیا جس کانام پیپلز لیگ رکھا گیا۔ نذیر وانی اس کے پہلے چیر مین بنے۔ اس نئی تنظیم کا آئین بھی مرتب کیا گیا جس میں عسکری جدوجہد کی بھی گنجایش رکھی گئی۔ کچھ ہی دیر بعد اندرا عبداللہ ایکارڈ ہوا۔ محاذ رائے شماری کا جنازہ نکالا گیا لیکن پیپلز لیگ نے حکمران ٹولے کی نیندیں حرام کردیں، چناںچہ شیخ محمد عبداللہ نے نذیر وانی کو اپنی وزارت میں شامل کرنے کی پیش کش بھی کی جس کو انہوں نے بڑی بے رخی سے رد کردیا۔
1975 ء میں ہی مقبول بٹ کشمیر آئے ۔ وہ بھی عسکری تحریک کا آغاز کرنا چاہتے تھے۔ پیپلز لیگ کے زعماء سے ان کی ملاقات سوپور میں ہوئی لیکن نذیر صاحب نے ان سے ضمانت طلب کی جس کے لئے ایک وفد کو نیپال میں پاکستانی سفارت خانے میں ایک خاص شخص سے ملنا طے پایا لیکن ایسا نہ ہو پایا اور مقبول بٹ صاحب لنگیٹ ہندوارہ کشمیرمیں گرفتار ہوئے۔ نذیر صاحب 1977 ء میں مظفرآباد چلے گئے اور کچھ دیر اپنے والد جو وہاں جلائے وطنی کی زندگی گزار رہے تھے، کے پاس مقیم رہے۔ اس کے بعد وہ سعودی عرب گئے اور تقریباً 22سال تک وہاں رہے۔ آخر میں وہ امریکہ چلے گئے جہاں مسلسل بیماری کی وجہ سے17 ؍ مارچ2017ء کو آپ فوت ہوئے۔ انہیں ٹیکساس امریکہ میں سپرد خاک کیا گیا۔نذیر وانی صاحب پر یہ الزام ہے کہ وہ کشمیر سے فرار ہوئے لیکن ان کے ساتھی اس کی تردید کرتے ہیں ۔ ان کے مطابق وہ پاکستان ایک مشن پر گئے لیکن محمد اشرف بٹ ایڈوکیٹ کے مطابق وہاںایک بار پھر ان کے پلان سے اتفاق نہیں کیا گیا۔ وہ بظاہر سیاست سے الگ ہوئے لیکن بیشتر حریت پسند کہتے ہیں کہ وہ تحریک سے آخری دم تک وابستہ رہے اور وقتاً فوقتاً حریت پسندوں کو اپنے زریںمشوروں سے بھی نوازتے رہے۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں ۔
فون نمبر9419009648