غلام نبی وانی 1925 ء کے آس پاس آلوچہ باغ سری نگر کے عبدالصمد وانی کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مقامی اسکول میں پائی۔ علی گڈھ سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور ضلع بڈگام میں قانون کی ڈگری والے پہلے شخص بنے۔ تب آلوچہ با غ ضلع بڈ گام میں شامل تھا لیکن قانون کی ڈگری کے باوجود وہ افلاس، مایوسی اور بے بسی کے علاوہ کچھ حا صل نہ ہوا۔ وانی صاحب شیخ محمد عبداللہ سے کافی متاثر تھے اور ان کو قوم کا نجات دہندہ سمجھتے تھے۔ شیخ محمد عبداللہ اورنیشنل کانفرنس کا فدوی ہونے کے ناطے وہ تحریک سے ہمیشہ جڑے رہے۔ 1953ء میں جب بخشی غلام محمد نے حکومت سنبھالی تو وانی صاحب مایوس ہوئے۔ وہ بخشی غلام محمد اور ان کے حا میوں سے ہمیشہ دور رہے لیکن24 ؍مارچ 1956ء کو شیخ محمد عبداللہ نے وانی صاحب کو درگاہ میں تقریر کرنے کو کہا۔ ا س کے فوراً بعد وانی صاحب کو گرفتار کیا گیا اور ٹارچ کے شرمناک دور سے گزارا گیا۔ اس ٹارچر کا وانی صاحب کے جسمانی ا ور ذہنی صحت پر بہت بُرا اثر پڑا۔ اسیری کے دوران ظالم ہاتھوں نے وانی صاحب کی زند گی کے حسین خواب زمین بوس کر دئے اور پھر ڈاکٹر خشو کے رپورٹ زیر نمبر 1363مورخہ 18؍جولائی 1957 ء کو جیل سے بے بسی اور بُری حالت میں رہا کیا گیا۔بیماری اور بے بسی کے باوجود وانی صاحب نے تحریک سے ناطہ نہ توڑا۔ وہ محاز رائے شماری سے وابستہ ہوئے اور دن رات سرگرم رہے اور اکثر گھر سے باہر ہی رہنے لگے۔ اُن کے فرزند مجروح مجید وانی کے مطابق وانی صاحب والدین اور بچوں کی دیکھ بال نہ کر سکے: ’’ مجھے دسویں جماعت تک معلوم ہی نہ تھا کہ بچوں کا باپ بھی ہوتا ہے۔ میرے والد صاحب نے اپنی زندگی کے حسین دن بے بسی کی حالت میں گھر سے باہر گزارے، جب کہ اُن کا لیڈر جیل میں ہر قسم کے مراعات حاصل کرتا رہا۔کشمیر سے دہلی تک کے حکمران ان کی دیکھ بھا ل پر مامورتھے اور اس کے بچوں کو ڈگر یوں سے نوازاجارہا تھا ۔وہ ریاستی اوقاف سے بھی مراعات حاصل کرتا تھا جب کہ ہم تڑپ تڑپ کرزند گی کے دن بسر کرتے رہے۔1975ء میں آپ کی قربانیوں کو ’’آوارہ گردی‘‘ قرار دے کر را ئے شماری کا نیلام کر دیا گیا اور اقتدار پر قابض ہوگئے ‘‘۔مجروح صاحب نے شیخ محمد عبداللہ سے اپنی ملاقات کا ذکر بھی کیا: ـ’’ میں ان سے نیڈوز ہوٹل میں ملا اور اپنے والد صاحب کی حالت زار سے انہیںآگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں PM جیل خانہ جات ہوں۔ اگر تم جیل جانا چاہتے ہو تو میں ابھی تمہاری خواہش پوری کروں گا‘‘۔وانی صاحب زندگی کے آخری پل تک آزادی کی اُس صبح کا انتظار کرتے رہے جس کے خواب ان کے لیڈر نے پوری قوم کو دکھائے تھے ،پھر 5 جنوری 1997ء کو اسی بے بسی کی حالت میں آپ اس دُنیا سے رخصت ہو گئے۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں
فون نمبر9419009648