عبدلغنی کدلہ 1932ء میں شہر خاص گوجوارہ سرینگر کے غلام احمد کدلہ کے ہاں پیدا ہوئے۔ بعد میں انہوں نے احمداکدل سرینگر میں سکو نت اختیار کی۔ کدلہ صاحب شروع سے ہی مسلم کانفرنس کے حامی تھے اور اس کے تمام پروگراموں میں حصہ لیتے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے اسلامیہ اسکول میں حا صل کی ۔ 1947 ء میں جب ان کی عمر صرف 15 سال تھی وہ اپنے کچھ ساتھیوں جن میں پروفیسر محمد مقبول بژھ اور محمد یوسف شاہ ( جندگرو) شامل تھے، شیخ محمد عبداللہ سے ملے اور انہیں بھارت سے الحاق نہ کرنے کی تلقین کی ۔ ان سے کہا گیا کہ تم لوگ اپنی تعلیم پر توجہ دو۔ یہ واقعہ ان کے سیاسی شعور ، بے باکی ، خود اعتمادی اور بالغ نظری کی عکاسی کرتا ہے۔ شیخ محمد عبداللہ سے ایسی بات کچھ ہی لوگ کر پائے۔ کدلہ صاحب اور ان کے دوستوں کی یہ کوشش رائیگاں گئی ۔جب بھارتی فوج کشمیر میں داخل ہوئی تو کدلہ صاحب نے شیخ محمد عبداللہ کی زبردست مخالفت کی۔ یہی روش انہوں نے آنے والے ماہ و سال میں ایس پی کالج میں روا رکھی، جہاں سے انہوں نے بی ایس سی پاس کیا اور اسٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ شیخ محمد عبداللہ کے عہد حکومت میں کدلہ صاحب اے جی آفس میں ملازم ہوئے لیکن شیخ محمد عبداللہ نے کدلہ صاحب کو پاکستانی ایجنٹ قرار دے کر نوکری سے برخواست کروایا۔ اس کے ساتھ ہی ان پر سرکاری ملازمت حرام قرار دی گئی۔ شیخ محمد عبداللہ نے انہیں پش بیک یعنی جلائے وطن کرنے کی دھمکی بھی دی تھی لیکن کد لہ صاحب نے شیخ کواس کاموقع ہی نہ دیااور خود ہی پاکستان ہجرت کر گئے۔ وہاں وہ میر واعظ یوسف شاہ صاحب سے ملے اور کے ایچ خورشید کے دوستوں میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے مزید تعلیم کے لئے لاہور یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ کدلہ صاحب بخشی دور میں وطن واپس آئے لیکن آتے ہی گرفتار ہوئے۔ رہائی کے فوراً بعد وہ اسلامیہ اسکول میں اُستاد مقرر ہوئے۔ اسی دوران موئے مقدسؐ چوری ہوا جس کی بازیابی کے لئے زبردست عوامی تحریک چلی۔ کدلہ صاحب نے اس تحریک میں بھر پور حصہ لیا۔
1965ء میں وہ اس وقت گرفتار ہوئے جب ان کی شادی کو صرف سات دن ہوئے تھے ،دو ماہ بعد رہا کئے گئے ۔ وہ سائیکلوسٹائل مشین پر پوسٹر چھاپ کر انہیں شہر کے مختلف علاقوں میں چسپاں کرتے۔ انہوں نے مجاہدین کی بہت مدد کی ۔ 1975 ء میں انہوں نے ایکارڈ مخالف جلسے جلوسوں کا اہتمام کر کے ان میں بھر پور شرکت بھی کی، اسی کی پاداش میں ایک بار پھر گرفتار کئے گئے اور رہائی ایک سال بعد ملی۔ کدلہ صاحب آخری دم تک اپنے سیاسی موقف پر ڈٹے رہے۔ رواں تحریک میں بھی وہ سرگرم رہے۔ وہ سر فروشوں اور سیاسی کارکنان کو اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہتے۔ کدلہ صاحب 21 ستمبر 2010 کو 78 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں
فون نمبر9419009648