ساجدہ بانو 1906کے آس پاس جنوبی کشمیر کے ہنگامہ خیز قصبہ شوپیان میں پیدا ہوئیں۔ عام کشمیری عورتوں کی طرح وہ بھی اسکول نہ جاسکیں لیکن ہوش سنبھالتے ہی انہیں لگا کہ وادیٔ گلپوش میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اسی دوران اُن کی شادی ہوئی ۔ اپنے نازک دل میں ہزاروں خواب سجائے وہ اپنے سسرال آئیں لیکن جلد ہی ان پر یہ حقیقت آشکارا ہوئی کہ ان کا سرتاج بھی ڈوگرہ شاہی کے سخت خلاف ہے ۔ یہی وہ زمانہ تھا جب کشمیر میں تحریک آزادی کا آغاز ہو۔ 13؍جولائی 1931 ء کو سرینگر سنٹرل جیل کے باہر مسلمانوں کاقتل عام ہوا۔ بائیس افراد نے جام شہادت نوش کیا۔ پوری وادی میں احتجاجی جلوسوں کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوا۔ وادی کے علاوہ دلی، امرتسر، لاہور اور باقی جگہوں پر مسلمانوں نے کشمیری مسلمانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے طورجلسے اور جلوسوں کا اہتمام ہوا۔ عوامی ردعمل سے ڈوگرہ شاہی کے نیند یں حرام ہوئیں۔ ریاست سے باہر ہورہے احتجاج نے مہاراجی تخت وتاج کو سخت پریشان کیا تھا۔ وہ کسی بھی طرح احتجاج کا یہ سلسلہ روکناچاہتے تھے۔کشمیر میں ڈوگرہ فوج نے احتجاج کرنے والوں پر جا بجا تشدد کیا، کئی جگہ گولیاں بھی چلائیں، سرعام لوگوں کو جلادوں نے چابک سے بھی مارا پیٹا ، کئی لوگ زیر حراست مارے گئے لیکن پھر بھی احتجاج جاری رہا۔
مسماۃاجدہ کا شوہر بھی احتجاجی جلوسوں کا اہتمام کرتا ۔ وہ اکثر جلسے جلوسوں میں پیش پیش دیکھے جاتے۔ ایسے ہی ایک جلوس پر ڈوگرہ فوج نے بے تحاشہ گولیاں بر سائیںاور ساجدہ بیگم کا شوہر شہادت کی نعمت سے نوازا گیا۔ ان دنوں ساجدہ اُمید سے تھیں۔ اپنے پیارے شوہر کی شہادت کے غم نے انہیں بہت نڈھال کر دیا ۔ وہ ڈوگرہ شاہی کے خلاف اپنی نفرت وبیزاری کا اظہار کرنا چاہتی تھیں لیکن قریبی رشتہ داروں نے ان کو اپنے کوکھ میں شوہر کی آخری نشانی کا واسطہ دے کرکچھ دیر کے لئے خاموش کر دیا۔ لیکن ستمبر 1931 ء کے ایک دن ان کے صبر کا پیمانہ مکمل طور لبر یز ہوا۔ وہ ایک جلوس میں شامل ہوئیں۔ ڈوگرہ شاہی کے خلاف نعرے بلند کرتی ہوئیںوہ دنیا و مافیہا سے بے خبر مارچ کر رہی تھیں کہ فوج نے بر سر موقع گولیاں چلائیں۔ ایک گولی ان کوشکم کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔ معصوم بچہ جس نے ابھی اس دنیا کو د یکھا بھی نہ تھا، اسی وقت فوت ہو ا ۔ احتجاج کرنے والوں نے ایک لرزہ خیز چیخ سنی اور دیکھا ساجدہ اپنی ابدی زندگی کا آغاز کر چکی ہیں۔ شوپیان کے عوام نے ا س غیور وجسور باغیرت وباحمیت خاتون کو اشکبار آنکھوں سے سپرد خا ک کیا ۔ افسوس کہ انہیں اور ان کو شوہر کو قوم نے بستہ ٔ فراموشی میں ڈال دیا۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں
فون نمبر9419009648