اس میںکوئی دورائے نہیں کہ گلمرگ میں سیاحوں کا اتنا زیادہ رش ہے کہ وہاں تِل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میں گلمرگ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا کوئی خاص رول نہیں ہے بلکہ وہ دراصل اُس حکومتی مہم کا نتیجہ ہے جس کے نتیجہ میں پور ے ملک اور بیرون ملک سے سیاح یہاں بڑی تعداد میں آرہے ہیں لیکن گلمرگ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا جو اپنا کام تھا ،وہ صحیح طریقے سے نہیں ہوپارہا ہے ۔اتھارٹی کا کام گلمرگ میں ماحول دوست ڈھانچے کا قیام ہے اور اس میں یہ کام بھی شامل ہے کہ ماحولیاتی طور حساس گلمرگ کو پاک و صاف رکھا جائے لیکن جس طرح برف پوش گلمرگ سے مسلسل کچرے کے ڈھیروں کی تصویریں آرہی ہیں،وہ پریشان کن ہیں۔ہوسکتا ہے کہ جی ڈ ی اے حکام اپنی سطح پر کوششیں کررہے ہوں لیکن زمینی سطح پر جو تصویر بنی ہوئی ہے ،وہ اطمینان بخش نہیں ہے ۔گلمرگ گالف کلب عملی طور اسطبل میں تبدیل ہوچکا ہے جہاں ہر وقت گھوڑے دوڑتے نظر آتے ہیں اور حالت یہ ہے کہ گلمرگ کے کونے میں آپ کو گھوڑوں کے گوبر کی بدبو ملے گی اور اگر بدبو نہ ہوگی تو سوکھا گوبر ضرور ملے گا۔یہی حالت چلڈرن پارک گلمرگ کی ہے ۔کہنے کو تو یہ پارک بچوںکی تفریح کیلئے بنائی گئی ہے لیکن عملی طور پارک میں تفریح کے نام پر کچھ زیادہ نہیں ہے بلکہ اگر یوں کہاجائے کہ یہ پارک دیگر عام پارکوںسے قطعی مختلف نہیں ہے تو بیجا نہ ہوگا۔عالمی سیاحتی مقام پر جب آپ بچوں کی تفریحی پارک کا یہ حال رکھیں گے تو آپ پر تنقید تو ہوگی ۔ایک طرف آپ گلمرگ کو عالمی سیاحتی مقام کے طور پوری دنیا میں متعارف کررہے ہیں لیکن دوسری جانب جب زمینی سطح پر اسی گلمرگ کے ذیلی تفریحی مقامات پر طائرانہ نظر دوڑائی جاتی ہے تو افسوس کے سو اکچھ ہاتھ نہیں لگتا کیونکہ وہاں دکھانے کو کچھ نہیں ہے ۔گلمرگ گالف کلب کو حکام ایک پہاڑی گالف کورس کے طور پوری دنیا میں بیچ سکتے تھے اور پوری دنیا سے گالف کے شیدائیوںکو گلمرگ کی اونچائیوںکی طرف کھینچ سکتے تھے لیکن گالف کورس کی حالت یہ ہے کہ وہاں مقامی لوگ بھی بیٹھنا یا کھیلنا پسند نہیں کرتے کیونکہ وہ گالف کلب اور گھوروںکا اسطبل زیادہ لگ رہاہے ۔یہی حالت گلمرگ کلب کی ہے ۔گلمرگ کلب گلمرگ کا چہرہ ہے ۔کلب کا اندرون جہاں قابل رحم ہے وہیں بیرون اس سے بھی بدتر ہے ۔کلب کے آس پاس آرائش کا کوئی بندوبست نہیںہے اور نہ ہی کلب کی خوبصورتی کو دوبالا کرنے پر کوئی زیادہ توجہ دی گئی ہے۔مہاراجہ پیلس تاریخی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس پیلس کو بھی برائے نام رکھاگیا ہے اور یہ محض ایک عمارت تک محدودرہا ہے جبکہ عملی طور اس کو مزید پُر کشش اور جازب نظر بنانے کیلئے کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے ۔گلمرگ گنڈولا کے دو فیز ہیں۔نیچے گلمرگ سے کنگ ڈوری اور پھر افروٹ تک ہر جگہ صفائی ستھرائی کا فقدان ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ گلمرگ کا کوئی والی وارث ہی نہیں ہے۔اب آج کل گلمرگ باباریشی روڈ پر پڑے کچرے کے ڈھیروں پر لے دے ہورہی ہے ۔جہاں گلمرگ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کاماننا ہے کہ اس کچرے کو ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری گلمرگ میونسپل کمیٹی ہے وہیں میونسپل کمیٹی گیند واپس جی ڈی اے کے پالے میں ڈال کرپلو جھاڑ رہی ہے ۔نتیجہ یہ ہے کہ کچرے کے ڈھیر بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں اور یہ سب عدالتی احکامات کی خلاف ورز ی کی قیمت پر کیاجارہا ہے جس نے گلمرگ میں ماحولیاتی تباہی پرشدید نوٹس لیکر حکام کو گلمرگ کا ماحولیاتی نظام بچانے کا پابند بنا رکھا ہے ۔اب یہ کچرے ،فضلہ اور پاسٹک کس کو ٹھکانے لگانا ہے اور کون اس کا ذمہ دار ہے ،اس بحث میں پڑے بغیر اس بات سے انکار کوئی نہیں کرسکتا کہ کچرا،پلاسٹک اور ٹھوس فضلہ اب گلمرگ کی نئی پہنچان بن چکا ہے ۔جب آپ کے سب سے بہترین سیاحتی مقام کا یہ حا ل ہو تو آپ اپنی سیاحتی منزلوں کو باہر متعارف کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کریں گے کیونکہ آپ کا چہرہ ہی داغدارہو تو آپ کے پاس دکھانے کو پھر رہتا ہی ہے ۔گلمرگ میں خیمے لگانے پر پابندی عائد کرکے گلمرگ کو نہ ہی بچایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کی شان رفتہ بحال کی جاسکتی ہے۔یہ چھوٹے اقدامات ہیں اور ایسے اقدامات سے کچھ زیادہ بھلا ہونے والا نہیں ہے ۔حکام کی توجہ گلمرگ کی ہمہ گیر بحالی پر ہونی چاہئے ۔گلمرگ کا دم گھٹ رہا ہے ۔اس میں نئی روح پھونکنے کی ضرورت ہے۔سیاحوں کی واہ وائی کو اپنی کارکردگی سمجھ کر تلخ حقائق سے چشم پوشی کرنا مناسب نہیںہے ۔کشمیر کے مقامی باسی ہی جانتے ہیں کہ گلمرگ پہلے کیسے تھا اور اب اس کی کیا حالت ہوچکی ہے ۔اس لئے مقامی لوگوںکے فیڈ بیک کو سنجیدگی سے لیاجائے اور گلمرگ کو فوری طور سانس لینے د جائے تاکہ یہاں نئی ترو تازگی پیدا ہوسکے ۔گلمرگ جتنا دیدہ زیب اور خوبصورت ہوگا،اُتناہی ہماری سیاحت چلے گی ۔اس لئے لازمی ہے کہ کشمیر کے سیاحتی شعبہ کے ماتھے کے جھومر کو شاندار اور باوقار بنانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیاجائے کیونکہ یہ ہم سب کا مشترکہ اثاثہ ہے اور اس کی بحالی و تحفظ کاری ہم سب کا مشترکہ قرض بھی ہے اور فرض بھی ۔