اشفاق سعید
سرینگر //عالت عالیہ کی طرف سے پابندی کے باوجود کشمیر کے صحت افزاء مقامات پر پالی تھین کا بے تحاشا استعمال ماحولیاتی توازن کو بری طرح متاثر کررہا ہے۔سیاحوں کے بھاری رش محکمہ ٹورازم اور اسکے ساتھ منسلک دیگر ادارے پھولے نہیں سما رہے ہیں لیکن اصل معاملے کی طرف آنکھیں بند کی جارہی ہیں۔وادی کے صحت افزاء مقامات گلمرگ، پہلگام، دودھ پتھری، سونہ مرگ، کوکر ناگ،یوسمرگ ،ویری ناگ اور دیگر سیاحتی و ماحولیاتی حساس مقامات پر پالی تھین اور پلاسٹک کے تھیلوں کے استعمال پر پابندی سے متعلق ہائی کورٹ کے احکامات کوہوا میں پھینک دیا جا رہا ہے۔
گلمرگ میں دکاندار اور سیاح ممنوعہ اشیا کا استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور متعلقہ حکام کوئی اصلاحی اقدامات نہیں کر رہے ہیں۔گلمرگ میں، دکانداروں کو پلاسٹک کے تھیلوں میں گاہکوں کو سامان فروخت کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔دکاندار کھلے عام یہ کہتے ہوئے سنے جاسکتے ہیں کہ یہاں پلاسٹک پر پابندی ہے لیکن کاغذی تھیلوں کا کوئی فائدہ نہیں، گاہک صرف پلاسٹک کے تھیلوں کو ترجیح دیتے ہیں۔گلمرگ مارکیٹ میں چکن، سبزیاں اور دیگر ہر قسم کی چیزیں پالی تھین تھیلوں میں گاہکوں کو دی جاتی ہیں۔ پلاسٹک کے تھیلے، جنک فوڈ کے پھٹے ہوئے ریپر، جیسے انکل چپس اور کرکورے وغیرہ کے ساتھ استعمال شدہ پلاسٹک، مشروبات کی بوتلیں گلمرگ کے آس پاس ہر جگہ دیکھی جاسکتی ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ متعلقہ حکام کی جانب سے بائیو ڈیگریڈیبل اور غیر بایوڈیگریڈیبل کچرے کو الگ الگ ڈبوں میں رکھنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ ماحولیات سے متعلق امور پر کام کرنے والی ایک غیر سرکاری رضاکار تنظیم کا کہنا ہے کہ وادی کے صحت افزاء مقامات پر سب سے زیادہ پالی تھین، پلاسٹک اور دیگر ممنوعہ چیزیں استعمال ہورہی ہیں۔انکا کہنا ہے کہ گلمرگ میں اوسطاً ہر روز ایک کوئنٹل پالی تھین و پلاسٹ کا کچرا جمع ہوجاتا ہے۔گلمرگ انٹری پوائنٹ پر گاڑیوں کی تلاشی کے دوران پالی تھین کو ضبط کیا جاسکتا ہے لیکن یہاں صرف انٹری فیس لی جاتی ہے پالی تھین ضبطی نہیں۔گلمرگ میں پالی تھین کے استعمال پر پابندی کی کوئی تشہری بورڈ نہیں آتا ہے۔یہی حال افروٹ یا کنگہ ڈوری جانے سے قبل کا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ گلمرگ میں پالی تھین لیجانے کی اجازت دکانداروں کو کون دے رہا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ جموں کشمیرہائی کورٹ نے2006 میں سیاحتی مقامات اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں میں پالی تھین بیگ کے داخلے، استعمال اور فروخت پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ ڈویژن بنچ نے گلمرگ، پہلگام، سونمرگ، ڈل جھیل، مغل باغات اور سرینگر اور جموں شہروں کے آس پاس کے سیاحتی مقامات، خاص طور پر پالی تھین کیری بیگز پر پابندی عائد کرنے کا حکم دیا۔عدالت نے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی تھی کہ وہ متعلقہ محکموں کے سربراہوں کا اجلاس طلب کریں اور پابندی کو نافذ کرنے کے لیے ایک طریقہ کار تیار کریں جس میں داخلے کے مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کی جائیں اور مطلوبہ نگران عملہ کی تعیناتی کی جائے۔بنچ نے کہا کہ ممنوعہ علاقوں میں تمام دکاندار، تاجر، ہوٹل انتظامیہ اور دیگر اداروں کو پالی تھین کیری بیگز فروخت کرنے یا استعمال کرنے سے روک دیا تھا۔عدالت نے متعلقہ ریاستی عہدیداروں کو یہ بھی ہدایت دی تھی کہ وہ پالی تھین پر پابندی کے لیے قانون سازی کا مسودہ حکومت کو پیش کریں تاکہ متعلقہ حکام ذاتی طور پر ذمہ دار اور جوابدہ ہوں گے اور کسی بھی خلاف ورزی یا خلاف ورزی پر انہیں قانون کے تحت نتیجہ خیز کارروائی کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔عدالتی حکم کی تعمیل میں18 جون، 2008 کو، جموں و کشمیر حکومت نے نان بائیوڈیگریڈیبل میٹریل(مینجمنٹ، ہینڈلنگ اور ڈسپوزل )ایکٹ، 2007 کے مطابق ایس آر او 182 جاری کیا، جس میں تمام قسم کے پالی تھین بیگز پر پابندی لگا دی گئی۔
تاہم، یکے بعد دیگرے حکومتیں اس پابندی کو نافذ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔اس کے تناظر میں، جموں اور کشمیر آلودگی کنٹرول کمیٹی(جے کے پی سی سی) نے یک عوامی نوٹس جاری کیا تھا جس میں مرکز کے زیر انتظام علاقے میں واحد استعمال پلاسٹک کی پیداوار، ذخیرہ کرنے، تقسیم کرنے، فروخت کرنے اور استعمال کرنے پر پابندی عائد کی گئی ۔2014 میں، پالی تھین پر پابندی سے متعلق اس کی ہدایات کی عدم تعمیل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے، ہائی کورٹ نے اس وقت کے ریاست کے 14 ڈپٹی کمشنروں کو ہدایت دی کہ وہ وجہ بتائیں کہ ان کے خلاف “عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر‘‘توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہیں کی جانی چاہیے۔ہائی کورٹ نے ایک الگ ہدایت میں حکام سے کہا تھا کہ ٹنگمرگ انٹری پوائنٹ پر پلاسٹک کی اشیاء کے داخلے کی جانچ کریں لیکن میونسپل حکام کی طرف سے گلمرگ کے داخلی مقامات پر ایسی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔ یہاں شہریوں کو دکانداروں سے پالی تھین بیگوں میں کھانے پینے کی اشیاء اورپلاسٹک کی بوتلیں خریدنے دیکھا جاسکتا ہے۔حالانکہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے گلمرگ کی حدود میں پلاسٹک کے تھیلوں میں چپس اور دیگر اشیا کی فروخت پر پہلے ہی پابندی عائد کر دی ہے۔ہائی کورٹ نے جون 2017 میں جموں و کشمیر کیبل کار کارپوریشن کو ہدایت کی تھی، جو گنڈولہ لفٹوں کو چلاتی اور ان کا انتظام کرتی ہے، جب لوگ ان لفٹوں میں سوار ہوتے ہوں، تو ان کی تلاشی لی جائے۔ہائی کورٹ ڈویژن بنچ، جو سیاحتی مقامات پر ایک PIL کی سماعت کر رہی تھی، نے گلمرگ میونسپل کمیٹی کو بھی ہدایت دی تھی کہ وہ گلمرگ میں پابندی کی “سخت تعمیل” کو یقینی بنائے۔گلمرگ میں کوڑا کرکٹ، کچرا اور صفائی کی مکمل ذمہ داری میونسپل حکام کی ہے جس سے پہلو تہی کی جارہی ہے۔ کیونکہ صرف گلمرگ میں ہی نہیں بلکہ افروٹ اور کنگہ ڈوری میں سینکڑوں کی تعداد میں سیاح ہر روز سیر و تفریح کیلئے آتے ہیں اور ماحولیات کے تناظر میں دونوں مقامات حساس ہونے کے باوجود بھی یہاں پڑے کچرے اور خاص کر پالی تھین یا پلاسٹک کو جمع کر کے ضائع نہیں کیا جارہا ہے۔ میونسپل کمیٹی گلمرگ /ٹنگمرگ کے سی ای او توصیف رینہ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ سیاحوں ، ہوٹل مالکان اور دکانداروں کو پہلے اس کے مضر اثرات کے بارے میں آگاہی فراہم کی جائے گی اور اگر وہ باز نہیں آئے تو انہیں جرمانے کیلئے تیار رہنا ہو گا ۔انہوں نے کہا کہ پلاسٹک کی بوتلوں پر کنٹرول کرنا مشکل ہے ،کیونکہ ابھی حکومت کے پاس اس کا کوئی بھی متبادل نہیں ہے اور یہ ہمیں کچھ وقت تک برداشت کرنا ہے ۔
نہوں نے کہا کہ میونسپل کمیٹی ٹنگمرگ ، ایک کاونٹر قائم کرنے کا سوچ رہی ہے، جہاں لوگ پالی تھین کو جمع کرائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ گلمرگ میں گھر سے کھانا ، پھل ،سزیاں گھروں سے لانے والے لوگ پالی تھینکا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت گلمرگ میں 70فیصد ٹھوس فضلہ اور 30فیصد پالی تھین اور پلاسٹک نکلتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پلاسٹک کی بوتلیں آسانی سے ری سائیکل ہو جاتی ہیں،لیکن اس کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہے۔انہوں نے کہا کہ جب دن میں 10ہزار سے 20ہزار سیاح آتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق یہاں 600سے700بوتلیں پالی تھین کی نکلتی ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ سال 2015کے بعد گلمرگ میں سیاحوں کی آمد میں تین گناہ کا اضافہ ہوا ہے جس کو دیکھتے ہوئے سرکار نے یہ منصوبہ بھی بنایا ہے کہ گلمرگ میں سولڈ ویسٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ کیلئے مزید جگہ کا انتخاب کیا جائے تاکہ ٹھوس فضلہ اور پلاسٹک کو سائنسی طور پر ٹھکانے لگا یا جا سکے ۔