محبت کی دھیمی لہریں آہستہ آہستہ جھیل ڈل کے پُرسکون پانی میں ارتعاش پیدا کررہی تھیں۔کشتی جھیل کے نیلے پانی پر مچھلی کی طرح تیر رہی تھی۔جھیل ڈل کشمیر کی ایک مشہور جھیل ہے جو کئی مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے اور جس کے کنارے کشمیر یونیورسٹی کاکیمپس بھی واقع ہے۔شام کے ساتھ ہی سیاح کشتیوں میں سوار ہوکر جھیل کے رومان پرور ماحول کا لطف اٹھانے کے لئے سیرکے لئے نکلتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ بادشاہ شاہجہان بھی کبھی ممتاز کے ساتھ جھیل ڈل کی رومانی سیر کیا کرتا تھا۔
وہ دونوں بھی جھیل کی سیر کے دوران پھولوں سے سجی کشتی میں دوگلاب محسوس ہوتے تھے۔دونوں یونیورسٹی میں پوسٹ گریجویشن کررہے تھے۔ یونیورسٹی کے بیشتر طلبہ کی طرح یہ بھی شام ہوتے ہی جھیل کے رومان پرور ماحول کا لطف اٹھانے کے لئے گلابی کشتی میں سیر کو نکل جاتے۔یہ کشتی ہمیشہ گلابی پھولوں سے سجی رہتی اسی لئے یہ گلابی کشتی کے نام سے مشہور تھی۔ان دونوں کو بھی اسی کشتی کے ساتھ خاص لگاؤ تھا کیونکہ ۔۔۔گلابی کشتی دونوں کے لئے محبت کاتاج محل تھی۔ان کی محبت اسی کشتی میں پروان چڑھی تھی۔
دوبرسوں سے روحیں محبت کی مہک سے تازہ ہورہی تھیں۔لبوں پہ محبت کے سُر ہوتے تھے اور دو دل محبت کے دو پھول بن چکے تھے۔بہار ختم ہونے کے ساتھ ساتھ پھولوں کے اوپر خزاں کے سائے منڈلانے لگے۔یونیورسٹی کا فائنل امتحان ختم ہوتے ہی پروانہ راہداری مل گیا۔پھول تو نئی بہار کی تمنا سجائے جدا ہوگئے لیکن موسموں کی بے خبر تبدیلی نے ایک پھول کو نئے مالی کے چمن کی زینت بنا دیا۔بہار ہونے کے باوجود پھول میں پہلی جیسی خوشبو نہیں رہی تھی۔مالی بھی بجلیاں گرانے کاہی ماہر تھا اور کئی موسموں کے بعد آخر کار پھول اور مالی کا رشتہ ٹوٹ گیا۔
نئی بہار کی ساتھ ہی پھولوں میں نکھار آگیا۔شام کے رومان پرور سائے پھیل چکے تھے ۔وہ دونوںیونیورسٹی سے نکل کر جھیل ڈل کے کنارے پہنچ گئے ۔ گلابی کشتی نئے گلابوں سے سجی ہوئی تھی۔دلوں کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں۔ روح میں محبت کی مہک پھر سے تازہ ہوگئی۔قدم خود بخود گلابی کشتی کی طرف چل پڑے۔ کشتی پر سوار ہوتے ہی جھیل کا پرسکون پانی ارتعاش سے مچلنے لگا۔۔۔لیکن۔۔۔ ارتعاش کے باوجود گلابی کشتی سدا بہار سفرکی طرف روانہ ہوگئی ۔
وڈی پورہ ہندوارہ کشمیر193221
Mob'9906834877