فاضل شفیع بٹ
بشیر نائی اپنی دکان میں گاہکوں کے انتظار میں تھا ۔بشیر نائی کی دکان آج سونی سونی نظر آرہی تھی ۔لکڑی کی پرانی کرسی پر دھوپ کی ایک زرد لکیر پھیلی ہوئی تھی اور شیشے کے سامنے رکھا برش اور صابن جیسے کسی گاہک کے انتظار میں خاموش کھڑے تھے۔ دکان میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ دکان بھی بشیرے کے دکھ یا شہر کی خاموشی میں شریک ہو گئی تھی ۔
وقت کا پہیہ بھی عجب کھیل کھیلتا ہے، کبھی ہجوم انسان کو بے چین کر دیتا ہے اور کبھی خلوت کا یہ بوجھ روح کو کچل دیتا ہے۔
آج اتوار کا دن تھا اور حسب معمول ارشد اپنے بال اور داڑھی سنوارنے کے لئے دکان میں داخل ہوا اور بشیر سے مخاطب ہو کر بولا:
“کیوں بشیرے۔۔۔۔۔۔۔۔!! آج دکان میں بالکل بھیڑ نہیں ہے۔ کہاں میں گھنٹوں قطار میں بیٹھ کر اپنی باری کا منتظر رہتا اور کہاں آج آتے ہی مجھے کرسی پر براجمان ہونا پڑا ہے ”
“کیا بتاؤں ارشد صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔دھندا مان لو چوپٹ ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔صبح سے مکھیاں مار رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ ۔مشکل سے سو روپے کی آمدانی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔ایسا لگ رہا ہے کہ لوگوں نے اپنی داڑھی اور بال نہ تراشنے کی قسم کھا رکھی ہے۔۔۔۔۔۔۔میں بہت اکتا چکا ہوں ” بشیر کے لہجے میں رقت تھی۔
انسان کی روزی بھی تقدیر کے کھیل میں الجھی رہتی ہے؛ کبھی ہاتھ کی محنت سونے کی چڑیا بن جاتی ہے اور کبھی پسینے کے قطرے بھی مٹی کے ذرے بن کر بکھر جاتے ہیں۔
“ارے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔بشیر ایسا بالکل نہیں ہے۔۔۔۔۔۔دراصل خزاں کی آمد کے ساتھ ہی لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔دن بھر اپنے کھیتوں میں کام کرتے ہیں ۔بس چند دنوں کی بات ہے ۔پھر سے تمہاری دکان میں پہلی جیسی رونق ہوگی ” ارشد نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
“چل اب کام شروع کر ۔۔۔۔۔۔۔میرے بالوں اور داڑھی کی سیٹنگ کر دے۔”
بشیر زنگ آلود قینچی ہاتھ میں لے کر ارشد کے بال تراشنے لگا۔
چند منٹ بعد بوسیده کپڑوں میں ملبوس ایک بوڑھا دکان میں داخل ہوا۔ اس کے سر پر ہلکے سے سفید بال اور چہرے پر کھردری داڑھی ،بجھی ہوئی آنکھوں کے گرد سیاه حلقے ایسا مضمحل عکس پیش کر رہے تھے جس میں تھکن ،اداسی اور وقت کی بے رحمی ایک ساتھ جھلک رہی تھی ۔وہ پرانے سے بینچ پر بیٹھ کر خاموشی سے اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔
بوڑھا دراصل وقت کا چلتا پھرتا مرقع تھا، جس کے چہرے پر ماضی کی گرد اور مستقبل کی خاموشی دونوں لکھی ہوئی تھیں۔
بشیر نے ارشد کے بال تراشنے کے بعد جوں ہی اس کی چھوٹی سی داڑھی کو بڑی نفاست سے سنوارنا شروع کیا تو اسی لمحے ایک نوجوان بشیر کی دکان میں داخل ہوا۔ اس کے چہرے پر گھنی کالی اور لمبی داڑھی تھی جو اس کی شخصیت کو پرکشش اور باوقار بنا رہی تھی ۔وہ اس بوڑھے شخص کے داہیں طرف بیٹھتے ہی ارشد سے مخاطب ہوا :
” ارے بھائی ۔۔۔۔ آپ کو یہ فرینچ کٹ رکھنے میں شرمندگی کا احساس تک نہیں ہو رہا ہے ۔یہ عیسائیوں اور یہودیوں کی دین ہے ۔آپ ایک مسلمان ہو کر یہودیوں کی پیروی کر رہے ہو ۔اگر آپ کو لگتا ہے کہ فرینچ کٹ رکھنے سے آپ کی شخصیت میں نکھار آئے گا تو آپ کی سوچ سراسر غلط ہے ۔مسلمان کو چاہیے کہ اپنے چہرے پر کم سے کم ایک بالشت داڑھی ضرور رکھے ۔مجھے آپ جیسے فیشن پرست نوجوانوں کو دیکھ کر بڑا افسوس ہوتا ہے ۔ہم لوگ دین سے کوسوں دور بھاگ چکے ہیں ۔۔صدہا افسوس ہے آپ پر اور آپ کی کم علمی پر ”
ارشد پر گویا سکتہ طاری ہوا ۔وہ شرم سے پانی پانی ہو رہا تھا ۔وہ اپنے بچاؤ کے لئے اپنی زبان سے ایک لفظ تک نکالنے سے قاصر تھا ۔ایسا لگ رہا تھا کہ اپنے جواب میں کچھ کہنے کے لئے لفظ اس کے حلق میں اٹک گئے ہوں۔ بوڑھا شخص بڑے دھیان سے یہ نصیحت آمیز باتیں سن رہا تھا اور کسی گہری سوچ میں غوطہ زن ہو کر اپنی باری کے انتظار میں تھا ۔
الفاظ کا جادو عجیب ہے، یہ کبھی مرہم بن جاتے ہیں اور کبھی زہر، اور اکثر وہی لوگ سب سے زیادہ بولتے ہیں جن کے عمل سب سے کمزور ہوتے ہیں۔
ارشد نے بشیرے کو آنکھ سے اشارہ کیا کہ فٹا فٹ اپنا کام ختم کر دے۔وہ جلد از جلد دکان سے رفو چکر ہونا چاہتا تھا ۔وہ ایک عجیب کیفیت سے دوچار ہوا تھا۔ بشیر حالات کو پرکھ چکا تھا اور اس نے زور سے ارشد کی پیٹھ تھپتھپائی اور کہا:
“ارشد صاحب کام مکمل ہو چکا ہے۔ اب آپ جا سکتے ہیں”
ارشد جٹ سے کرسی سے نیچے اتر گیا اور بشیر کو اجرت ادا کرنے لگا۔اتنے میں لمبی داڑھی والا نوجوان کھڑا ہو گیا اور کرسی پر زبردستی بیٹھ گیا۔اس نے بشیر کو ایک تحکمانہ لہجے میں کہا کہ جلدی سے اُس کی داڑھی اور بال تراشنے کا عمل شروع کریں کیونکہ اُس کو نماز کے لئے دیر ہو رہی تھی۔
کیا عجب تماشہ ہے کہ جو زبان پر دین کی بات کرتا ہے وہی عمل میں دین کی روح کو پامال کرتا ہے۔
ارشد ایک دم سے سٹپٹا گیا ۔بوڑھا شخص گم سم اور بے بس اپنی جگہ پر بیٹھا رہا۔ حالانکہ باری اس کی تھی لیکن داڑھی والے نوجوان نے اس کا کوئی لحاظ نہیں کیا ۔اس نے اپنی لمبی داڑھی کا فائدہ اٹھا کر ، دین کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر ایک ضعیف بوڑھے کے حق پر شب خون مارا۔
انسان کی اصل دینداری نہ چہرے کے بالوں میں ہے اور نہ الفاظ کے شور میں، بلکہ کمزور کا سہارا بننے اور حق دار کو حق دینے میں ہے۔
ارشد بوجھل قدموں سے دکان سے باہر نکلا ۔وہ راستے میں اسی سوچ میں گرفتار تھا کہ اگر فرینچ کٹ رکھنا دین کے اصولوں کے برعکس ہے تو پھر لوگوں کے حق پر شب خون مارنا کس زمرے میں آتا ہوگا؟
���
اکنگام، انت ناگ،موبائل نمبر؛ 9419041002