پریس کی آزادی چھینے کے مترادف قرار
شوکت حمید
سرینگر//گریٹر کشمیر اخبار میں سرکاری اشتہارات کی مسلسل معطلی کی گونج قانون ساز اسمبلی میں جمعرات کو مسلسل دوسرے دن بھی سنائی دی۔قانون سازوں نے میڈیا ہا ئوسز میں اشتہارات کی مساوی تقسیم کے لیے آزادی صحافت اور رپورٹرز کی حفاظت پر زور دیا۔ سی پی آئی(ایم)کے سینئر لیڈر اور ایم ایل اے کولگام ایم وائی تاریگامی نے کہا کہ ہندوستان کو ایک جمہوری ہونے کے ناطے میڈیا پر بھی توجہ دینی چاہئے جو جمہوریت کا چوتھا ستون ہے۔انہوں نے ایوان کو بتایا”لیکن جب بھارت میں آزادی صحافت کی بات آتی ہے، تو ہمارا انڈیکس نیچے جا رہا ہے۔ 2022 کے انڈیکس کے مقابلے ہمارا انڈیکس مزید نیچے چلا گیا ہے،” ۔جموں و کشمیر کا حوالہ دیتے ہوئے تاریگامی نے کہا کہ پریس زیادہ مظلوم ہے۔انہوں نے کہا، “اور میرا یقین ہے کہ کسی بھی معاشرے میں جہاں پریس کی آزادی چھین لی جاتی ہے، اس سے خلل ڈالنے والے عناصر کو فائدہ ہوتا ہے اور تفرقہ انگیز سرگرمیوں کو فروغ ملتا ہے۔”انہوں نے کہا کہ آزادی صحافت خودمختاری یا قومی مفاد سے متصادم نہیں ہے بلکہ یہ قومی یکجہتی کو فروغ دینے کا ستون ہے۔تاریگامی نے ایوان کو مطلع کیا، “ہم یہاں ایوان میں جو کچھ بھی جان بوجھ کر کرتے ہیں، اگر وہ عوام تک نہیں پہنچتا ہے اور وہ حکومت کی پالیسیوں سے آگاہ نہیں ہوتے ہیں، تو نظام میں کوئی شفافیت یا جوابدہی نہیں ہوگی،” ۔اخبارات میں سرکاری اشتہارات کی تقسیم کا حوالہ دیتے ہوئے ترگامی نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران میرٹ پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ “اخبارات میں اشتہارات کی تقسیم کے لیے کوئی معیار طے نہیں کیا گیا ہے، لیکن اب ایک منتخب حکومت قائم ہے لہٰذا ہم توقع کرتے ہیں کہ میڈیا کی مناسب پالیسی ہونی چاہیے۔”تنظیم نو کے ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بزنس قواعد کے مطابق تمام ادارے منتخب حکومت کے دائرہ اختیار میں ہیں۔انہوں نے کہا کہ “لیکن میں حیران ہوں کہ اس میں کنفیوژن کیوں ہے، اخبارات میں اشتہارات کی تقسیم کے لیے کوئی پالیسی نہیں ہے۔”انہوں نے کہا کہ گریٹر کشمیر، کشمیر ٹائمز اور دیگر اخبارات کو پچھلی حکومت نے نظر انداز کیا اور ان اداروں کو ایک منتخب حکومت ہونے کے باوجود اسی سلوک کا سامنا ہے۔انہوں نے ایوان کو بتایا کہ “ہمیں آزادی صحافت کو یقینی بنانا چاہیے اور رپورٹرز کو تحفظ دینا چاہیے، ہمیں اپنی جمہوریت کے اس چوتھے ستون کی حفاظت کرنی چاہیے اور میڈیا ہائوسز میں اشتہارات کی مساوی تقسیم کے لیے ایک مناسب میڈیا پالیسی نافذ کی جانی چاہیے۔”بعد ازاں پلوامہ سے پی ڈی پی ایم ایل اے وحید الرحمان پرہ نے گریٹر کشمیر، کشمیر عظمیٰ، کشمیر لائف اور دیگر اخبارات میں جاری سرکاری اشتہار کی مسلسل معطلی پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ 2019 کے بعد سے، گریٹر کشمیر جو کہ جموں و کشمیر کا سب سے بڑا زیر گردش اخبار ہے، ان اخبارات کی فہرست میں شامل نہیں ہے جنہیں سرکاری اشتہارات فراہم کیے جاتے ہیں۔پرہ نے کہا کہ اگر ایل جی انتظامیہ نے ان اخبارات کو اشتہار دینے سے انکار کیا تو منتخب حکومت کے وزیر اعلیٰ، جو کہ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے وزیر انچارج ہیں، کو اخبارات میں اشتہارات کی مساوی تقسیم کو یقینی بنانا ہوگا۔پرہ نے کہا، “لوگ نوٹیفکیشنز اور دیگر اشتہارات کے لیے گریٹر کشمیر، کشمیر عظمیٰ اخبارات پر انحصار کرتے ہیں، لہٰذا اگر حکومت پچھلے ایک سال میں ایسا نہیں کر سکی، تو اسے مستقبل میں اس پر عمل کرنا چاہیے۔”بدھ کے روز، جڈی بل سے نیشنل کانفرنس ایم ایل اے، تنویر صادق نے حکومت سے اس امتیازی سلوک کی وضاحت کرنے کو کہا جس کے تحت گریٹر کشمیر اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سمیت اخبارات کو اشتہارات دینے سے انکار کیا گیا ہے۔