یو این آئی
نئی دہلی//سپریم کورٹ نے ہریانہ کے گروگرام میں ’گرین پولیس ہائوسنگ پروجیکٹ‘کے تنازعہ کو حل کرتے ہوئے عرضی گزاروں(فلیٹ خریداروں)کو ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی آج اجازت دے دی۔جسٹس بی وی ناگارتھنا اور ستیش چندر شرما کی بنچ نے مکیش کنول (فلیٹ خریداروں میں سے ایک)اور دیگر کی طرف سے دائر ایک رٹ درخواست پر یہ حکم دیا۔ بنچ نے درخواست گزاروں کو متعلقہ ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن یا سیول سوٹ دائر کرکے قانون کے تحت مناسب حل نکالنے کی آزادی کے ساتھ معاملہ نمٹا دیا۔’مکیش کنول بمقابلہ ہریانہ رئیل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی، گروگرام’ کا مقدمہ 15 جنوری 2024 کو سپریم کورٹ میں دائر کیا گیا تھا۔سپریم کورٹ کے موقف پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مکیش کے ساتھ 13 درخواست گزاروں میں سے ایک وجے جین نے کہا ہم اس حکم سے انتہائی مایوس ہیں۔ ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد ہمیں دوبارہ شروع سے ہی کیوں مقدمہ شروع کرنا پڑے گا۔ کچھ بھی ہو، ہم سپریم کورٹ کا احترام کرتے ہوئے اور تمام قانونی آپشنز کا استعمال کرتے ہوئے لڑتے رہیں گے۔انہوں نے کہا “اوریس انفراسٹرکچر پرائیویٹ لمیٹڈ اور تھری سی شیلٹرز پرائیویٹ لمیٹڈ نے 2012 میں ہم سے (سینکڑوں خریداروں) سے 2016 تک فلیٹ فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ہم اپنے متعلقہ فلیٹس کے لیے 90 فیصد رقم (90 لاکھ سے 1 کروڑ روپے) پہلے ہی ادا کر چکے تھے، لیکن مختلف عدالتوں اور متعلقہ حکام کے دروازے کھٹکھٹانے کے بعد ہم نے بالآخر سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ اب تقریبا ایک سال گزرنے کے بعد بھی ہم اسی جگہ کھڑے ہیں۔ جین نے کہا کہ کئی جگہوں پر مایوس ہونے کے بعد ہم نے ہریانہ رئیل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی، گروگرام کا دروازہ کھٹکھٹایا، جس نے سال 2018 اور 19 میں یہ کہہ کر حکم جاری کیا کہ 2020 تک فلیٹس دستیاب ہوں گے، لیکن اس پر عمل نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ فلیٹس خریدنے والے تقریبا 1600 افراد میں سے کئی کی موت ہو چکی ہے جب کہ بہت سے ذہنی اور مالی مسائل کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں نے 12 سال قبل ریٹائرمنٹ کے بعد بہتر زندگی کی تلاش میں فلیٹس بک کروائے تھے۔
اور وعدے کے مطابق ادائیگی کی تھی لیکن اب وہ گھر گھر بھٹکنے پر مجبور ہیں۔