مختار احمد قریشی
رواںمہینے میںوادی کشمیر نے ایک غیر معمولی گرمی کی لہر کا سامنا کیا جو ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدید اور تکلیف دہ ثابت ہوئی۔ جہاں ایک طرف موسم کی شدت نے عوامی زندگی کو متاثر کیا، وہیں دوسری طرف کچھ ایسے رویے بھی دیکھنے کو ملے جو نہ صرف سماجی و اخلاقی اصولوں کے خلاف ہیں بلکہ معاشرتی توازن کو بھی بگاڑنے والے ہیں۔ گرمی سے بچاؤ کے لیے لوگ جو طریقے اپنا رہے ہیں وہ بعض اوقات اخلاقی دائرے سے باہر چلے جاتے ہیں جو کہ ایک تشویشناک پہلو ہے۔
گرمی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ کشمیر میں ماضی میں بھی گرمی ہوتی تھی، لیکن وہ اعتدال میں ہوتی تھی اور لوگ اس سے نمٹنے کے لیے فطری اور سادہ طریقے اختیار کرتے تھے۔ لکڑی کے گھروں، ٹھنڈے صحن، پانی کی سبیلوں، چھاؤں دار درختوں، اور مٹی کے گھڑوں کا استعمال عام تھا۔ اس وقت لوگوں کے اندر برداشت، صبر اور اخلاقی شعور بھی زیادہ تھا۔ گرمی سے نمٹنے کے لیے لوگ اپنے لباس، رویے اور ماحول کے مطابق خود کو ڈھالتے تھے نہ کہ ماحول کو غیر اخلاقی حرکات کا عادی بناتے۔
آج جب گرمی اپنی شدت پر ہے تو کچھ افراد پبلک مقامات پر ایسی حرکات کر رہے ہیں جو ایک مہذب معاشرے میں قابلِ قبول نہیں۔ مثال کے طور پر، سڑکوں کے کنارے، پارکوں، نہروں اور چشموں میں لوگ بلا جھجک کپڑے اتار کر نہا رہے ہیں، جسم کی نمائش کر رہے ہیں اور یہ سب کچھ عوامی نظروں کے سامنے ہو رہا ہے۔ ان میں کچھ ایسے بھی نوجوان ہوتے ہیں جنہیں یہ انداز فیشن یا آزادی کا مظہر لگتا ہے، مگر وہ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ ان کے اس عمل کا بچوں، خواتین اور بزرگوں پر کتنا منفی اثر پڑتا ہے۔
یہ رویے نئی نسل کے لیے خطرناک مثال بن سکتے ہیں۔ جب بچے اور نوجوان یہ سب کچھ معمول کے طور پر دیکھتے ہیں تو ان کے اندر شرم و حیاء کا جذبہ دھندلا پڑ جاتا ہے۔ پھر وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ جسم کی نمائش کوئی معیوب فعل نہیں بلکہ خود کو “cool” یا “modern” ظاہر کرنے کا طریقہ ہے۔ ہمیں غور کرنا ہوگا کہ اگر ہم نے ان رویوں پر قابو نہ پایا تو آنے والی نسلیں اخلاقی زوال کی ایسی گہرائیوں میں جا گریں گی جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوگی۔
گرمی سے بچاؤ کے لیے ہمیں وہی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں جو ہمارے گھروں میں دستیاب ہوں اور جو شریعت، تہذیب اور سماجی اصولوں کے مطابق ہوں۔ ذیل میں چند مؤثر اور اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے تدابیر پیش کی جا رہی ہیں:
� گھریلو کولنگ: مٹی کے گھڑے کا ٹھنڈا پانی، صحن میں پانی کا چھڑکاؤ، گیلی چادریں کھڑکیوں پر لٹکانا۔� لباس میں احتیاط: ہلکے رنگوں اور ڈھیلے لباس کا استعمال گرمی سے بچاتا ہے اور اخلاقی حدود میں بھی آتا ہے۔
� دوپہر کے وقت باہر نکلنے سے پرہیز کیا جائے، یا سر پر کپڑا رکھا جائے، چھتری استعمال کی جائے۔� لسی، ستو، تربوز، خربوزہ، کھیرا، اور لیموں پانی جیسے مشروبات استعمال کیے جائیں۔� روحانی سکون جسمانی تکلیف کو کم کرتا ہے۔ ذکر اور دعا سے دل کو ٹھنڈک ملتی ہے۔� بچوں کو سکھایا جائے کہ گرمی سے بچنے کے لیے لباس اور اخلاقیات کا خیال کیسے رکھا جاتا ہے۔
یہ ذمہ داری صرف والدین کی نہیں بلکہ اساتذہ، علماء، سماجی کارکنوں اور میڈیا کی بھی ہے کہ وہ اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر عوام میں شعور بیدار کریں۔ ہمارے معاشرے میں اگر چند لوگ اخلاقی حدود کو توڑ رہے ہیں تو ہمیں خاموش تماشائی بننے کے بجائے انہیں نرمی، محبت اور فہم و فراست سے سمجھانا چاہیے۔اسلام ہمیں اعتدال سکھاتا ہے۔ نہ تو افراط نہ تفریط۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ہمیں سادگی، حیا اور پرہیزگاری کی تلقین کی گئی ہے۔ نبی کریمؐ کا طرزِ زندگی ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم سخت حالات میں بھی صبر اور وقار کو اختیار کریں۔ اگر ہم اپنے طرزِ زندگی کو دینی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں تو کوئی بھی موسمی شدت ہمیں اخلاقی حدود سے باہر نہیں نکال سکتی۔
ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ شدید گرمی کی لہر کو بنیاد بنا کر کسی کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اخلاقی حدود کو پامال کرے۔ پبلک مقامات پر کپڑے اتار کر نہانا یا جسم کی نمائش کرنا کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں۔ گرمی سے بچنے کے ہزار طریقے ہو سکتے ہیں، مگر ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے جو شرم و حیاء کے دائرے سے باہر ہو۔
ہم کہاں جا رہے ہیں؟اگر ہم نے آج ہی اپنی روش نہ بدلی، نئی نسل کو اخلاقی دائرے میں تربیت نہ دی اور معاشرتی رویوں پر گرفت نہ کی تو وہ دن دور نہیں جب کشمیر، جو کبھی شرم و حیاء، سادگی اور وقار کی مثال ہوا کرتا تھا، اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں بے حیائی اور اخلاقی زوال کا شکار ہو جائے گا۔
ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم گرمی سے لڑنا چاہتے ہیں یا اخلاقیات سے منہ موڑنا چاہتے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ ہم گرمی کو سہنے کے لیے تدابیر کریں مگر اپنی روحانی و اخلاقی قدروں کو قربان نہ کریں، یہی اصل کامیابی ہے۔
(کالم نگار پیشہ سےایک استاد ہیںاوربونیار بارہمولہ سے تعلق رکھتے ہیں)
رابطہ۔8082403001
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔