خورشید ریشی
وادی کشمیر میں پچھلے کئی برسوںسے موسمی صورتحال بہت سنجیدہ ہو چکی ہے اور موسمی تغیر کے ساتھ ہی عوام زبردست مشکلات سے دوچار ہیں،کبھی تیز بارشوں اور آندھیوں سے انسانی جانوں کا زیاں ہوا ہے اور اب خشک سالی اور درجہ حرارت میں اضافے کی بدولت اور گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے معصوم جانوں کا زیاں جاری ہے اور آئے روز سوشل میڈیا کے ذریعے دل کو چھلنی کرنے والے واقعات سامنے آتے ہیں۔
موسمی صورتحال اور اس کے توازن کو برقرار رکھنے میں جہاں ہر انسان کو اپنا کلیدی رول ادا کرنا تھا مگر وہاں ستم ظریفی یہ ہے کہ اس توازن کو بگاڑنے میں ہم نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے ندی نالوں،چشموں اور تالابوں کی شکلیں مسخ کرنے والے بھی ہم ہی ہیں اور ان میں کوڑا کرکٹ اور فاضل مواد ڈالنے والے بھی ہم ہیں،پانی کو نعت سمجھنے والے بھی ہم ہی ہیںاور پانی ہی زندگی ہے، یہ سوچ رکھنے والے بھی ہم ہی ہیں، پانی کا بے تحاشا اور غیر ضروری استعمال کرنے والے بھی ہم ہی ہیںاور صاف و شفاف پانی کا مطالبہ کرنے والے بھی ہم ہی ہیں۔ رات بھر پینے کے پانی کا نل اپنے گھروں کی پارکوں اور سبزیوں میں کھلے چھوڑنے والے بھی ہم ہیںاور پانی کی قلت کی شکایت کرنے والے بھی ہم ہی ہیںاور گرمی کی تپش سے بچنے کے لیے اور راحت پانے کے لئے ندی نالوں،چشموں، تالابوں اور دریائوں کا رُخ کرنے والے بھی ہم ہی ہیں۔
الغرض ہم سب ان تمام باتوں سے بخوبی واقف ہیں مگر ہم یہاں انفرادی طور پر اپنی سوچ بدلنے کے بجائے اجتماعیت کا سہارا لے کرپلو جھاڑ دیتے ہیں اور خود بدلنے کے بجائے یا فیصلہ لینے کے بجائے دوسروں پر انگلی اٹھانے میں ماہر ہیں،جبکہ انفرادی طور پر ہم دن بھر ماحول کو آلودہ کرنے کے لیے سینکڑوں سرگرمیاں انجام دیتے ہیں اور اس میں ہم اپنینئی پود کو بھی فخر سے شامل کرتے ہیں۔
ان دنوں تمام آبی ذخائر پر لوگوں کو ہجوم دکھائی دیتا ہے اور مرد و زن گرمی کی تپش سے بچنے کے لیے ان آبی ذخائر میں موج مستی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور بغیر کسی شرم و حیا اور تمیز کے اخلاقی اقدار کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور بحیثیت والدین اور ذمہ دار شہری کے ہمیں اپنے عیال کی ان حرکتوں پر خوشی محسوس ہوتی ہے اور سیر و تفریح کے بہانے ہمارے ان آبی ذخائر میں کو کئی طرح کی آلودگی سے بھرا جاتا ہے اور جس پانی میں ہزاروں نوجوان دن بھر نہاتے ہوئے نظر آتے ہیں ،وہی پانی نیچے لاکھوں لوگ اپنی پیاس بجھانے یا کھانا پکانے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔اب ہماری مائیں ،بہنیں بھی کپڑے دھونے کے بہانے ان ندی نالوں دریائوں اور جھیلوں کی طرف سیر و تفریح کے لیے خانہ بدوشوں کی طرح رُخ کرتے ہوئے نظر آتی ہیں اور پانی کو پانی پانی کر دیتے ہیں اور یہ سب کچھ ہماری نظروں کے سامنے ہو رہا ہے اور ہم ہنسی مذاق میں بھی ان باتوں کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتے ہیں اور پھر ہم ہی سماج میں پھیلی بے حیائی کا رونا روتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
پانی کے بغیر زندگی کا وجود ہی ناممکن ہے مگر کیا صرف ندی نالوں، دریائوں اور تالابوں پر دن گزارنے سے ہی HEAT KO BEAT کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے گھروں میں اتنا بھی پانی نہیں کہ ہم گھر میں نہا سکیں،کیا ہمارے گھروں میں ہماری مائوں اور بہنوں کو گھر میں اتنا پانی میسر نہیں کہ وہ کپڑے دھو سکیں۔پچھلے کئی دنوں میں ہی ہمارے کتنے لخت جگر دریائوں اور تالابوں کی نذر ہو گئے اور کئی ایک معصوم بچوں کی لاشیں دو تین دنوں بعد ملیں۔اگر ہم نے انفرادی طور پر پانی کے بچائو اور آبی ذخائر کے تحفظ کے لئے اب بھی کوششیںشروع نہ کیں تو آنے والے وقت میں صورتحال بہتر ہونے کے بجائے اور خراب ہو سکتی ہے اور کھیتوں کی سینچائی کے لئے پانی تو دور کی بات، ہمیں پینے کے پانی کی بوند بوند کے لئے ترسنے میں دیر نہیں لگے گی ۔لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ سیر و تفریح پر جانے کے دوران بھی ہمیں اپنے آپ کو حدود میں رکھنے کی ضرورت ہے اور آبی ذخائر پر گرمی کی تپش سے بچنے کے لیے پانی کا بہترو مناسب طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے، جس سے یہ ذخائر بھی محفوظ رہیں اور اخلاقی اقدار کا جنازہ بھی نہ نکلیں۔
[email protected]