بشارت بشیرؔ
ایک معروف عرب مفکر رقم طراز ہے کہ میں ایک دن ٹیکسی میں سوار ہوکر ائرپورٹ کی جانب رواں دواں تھا۔ہم سڑک پر اپنی لائن پر جارہے تھے کہ اچانک کار پارکنگ سے ایک شخص بڑی سرعت کے ساتھ گاڑی لے کر روڑ پر نمودار ہوا۔ قریب تھا کہ اُن کی گاڑی ہماری ٹیکسی سے ٹکرائے مگر ٹیکسی ڈرائیور نے لمحوں میںبریک لگادی اور ہم کسی بڑے حادثے سے بچ گئے۔ ہم ابھی سنبھلے نہیں تھے کہ خلاف توقع وہ گاڑی ولا اُلٹا ہم پر چیخنے چلانے لگا، ٹیکسی ڈرائیور کو خوب کوسا،لیکن ٹیکسی ڈرائیور نے غصہ روک کر معذرت کردی اور مسکرا کر چل دیا۔ موصوف لکھتے ہیںکہ مجھے ٹیکسی ڈرائیور کے اس عمل پر حیرت ہوئی۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ غلطی تو اُس کی تھی اور غلطی بھی ایسی کہ کسی بڑے حادثے سے دور چار ہوسکتے تھے، پھر بھی آپ نے اُس سے معافی مانگ لی؟ٹیکسی ڈرائیور کا جواب میرے لئے ایک سبق تھا، وہ کہنے لگا کہ کچھ لوگ کچرے سے بھرے ٹرک کی طرح ہوتے ہیں، وہ گندگی اور کچرا لاد کر گھوم رہے ہوتے ہیں ،وہ غصہ، مایوسی و ناکامی اور طرح طرح کے داخلی مسائل سے بھرے پڑے ہوتے ہیں، اُنہیں اپنے اندر جمع اس کچرے کو خالی تو کرنا ہوتا ہی ہے بس وہ جگہ کی تلاش میںہوتے ہیں۔جہاں جگہ ملی یہ اپنے اندر جمع سب گندگی کو انڈیل دیتے ہیں۔ لہٰذا ہمیںاُن کے لئے ڈسٹ بن اور کچرا دان نہیں بننا چاہیے۔ موصوف لکھتے ہیں کہ اس قسم کے کسی فرد سے زندگی میں کبھی واسطہ پڑجائے تو اُن کے منہ نہ لگیں بلکہ مسکرا کر گذر جائیں اور اللہ تعالیٰ سے اُن کی ہدایت کے طلب گار ہوں۔ ظاہر ہے بات ایک عام ٹیکسی ڈارئیور کی زبان سے نکلی، زیادہ پڑھا لکھا بھی نہیں رہا ہوگا۔ لیکن پھر بھی تربیت اُس کی اس انداز سے ہوئی ہے کہ بات ایسی کہہ گیا کہ بڑے بڑے ذہین وفطین لوگ اس دانش مندی پر عش عش کہہ اُٹھیں ۔یہی بات قرآن نے صاف اور سیدھے الفاظ میں یوں بیان فرمائی ہے۔بس عملانے کی ضرورت ہے۔( وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا) یعنی جب آپ کو اُن لوگوں سے واسطہ پڑے جو صف جاہلاں میں شامل وشمار ہیں ،جو حق کہنے اور سننے کے روادار نہیں ،بات بات پر بگڑتے جھگڑتے ہیں تو بس اُن سے اعراض کرکے چلے جائیے۔اُن کے منہ نہ لگیں۔
قرآن وسنت کا غائر مطالبہ ہمیں یہی بتاتا ہے کہ دعوت دین کا معاملہ ہو یا معاشرتی زندگی کا کوئی بھی میدان،ہر لمحہ صبر اور خاموشی کا تقاضا فطرت کرتی رہتی ہے۔ایک دوسرے کو سننے اور برداشت کرنے کے اعمال ہی ایک اچھے معاشرے کی تعمیر میںممد ومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ قرآن نے جس معاشرے کی تصویر کشی کی ہے اور جومعاشرہ اسے مطلوب ہے، اُس کے اوصاف یہی ہیں کہ وہ زبان وشرمگاہ پر قابو رکھے۔لغو، چغلی، جھوٹ، دھوکہ دہی، کذب، افترا ، حق تلفی جیسے اخلاقی امراض خبیثہ اس معاشرہ میں نہ ہوں۔ سب سے بڑھ کر یہی کہ انسان صابر وشاکر ہو،غصہ پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ نفس کے بے لگام گھوڑے کی نکیل کسنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور اسے بالخصوص یقین ہوکہ زبان کے معاملہ میں اس سے محشر کی عدالت میںپوچھ گچھ ہوگی۔ اُس کی ہر بات کو لکھنے والے لکھنے کے عمل میں مصروف ہیں اور اس زبان کو بے قابو ہونے سے بچانے کے لئے جو ہدایات قرآن اور حضرت سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائے ہیں، وہ ایسے تاکیدی ہیں کہ پروانہ ٔرسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا معاذ بن جبل ؓ نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ؐ! ہم جو باتیں کرتے ہیں ان پر بھی ہم سے مواخذہ ہوگا، باز پُرس ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : معاذ ؓ لوگوں کو دوزخ میں ان کے منہ کے بل زیادہ تر اُن کی بے باکانہ باتیں ہی ڈالوائیں گی۔یعنی یہ سب کچھ زبان کی بے احتیاطیوں کی وجہ سے ہی ہوگا۔
ہمارا انسانی معاشرہ اس وقت جن روحانی اور اخلاقی امراض میںگھرا ہوا ہے، اُن میںزبان کی آفت رسیدگیاں کچھ کم نہیں۔اپنے عوام کا ایک بڑا طبقہ آتش بہ زبان ہے۔بات بات پر بگڑنے کا عمل زوروں پر ہے۔ ایک دوسرے سے الجھنے اور پھر زبانوں سے دلوں کو چھلنی کرنے کا چلن بھی خوب جوبن پرہے۔کدورتیں، نفرتیں اور دشمنیاں پنپ رہی ہیںاور صبر وسکون بہت حد تک عنقا نظر آرہے ہیں۔ ان حالات میں سلیم الفطرت لوگوں کی تلاش ایک اہم کام ہے۔ کون سا شعبہ زندگی ہے جہاں ہم ایک دوسرے سے برسر پیکارنہیں ہیں۔ بازار میں، دفاتر میں، کارخانوں کے ا ندر، گاڑیوں میں سوار ہوکر غرض ہم جہاں بھی ہوں ایک دوسرے کو سننے اور برداشت نہ کرنے کی خواہش یہی ہے کہ بس اُس کی سنی جائے، وہ جس چیز کو صحیح کہے دنیا اُس کے صحیح ہونے کی رٹ لگائے اور جس چیز کو غلط کہے۔دنیا قسمیں کھا کھا کر اُسے غلط ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ۔الیکٹرانک میڈیا کو ہی دیکھئے یہاں بھی اب بے اعتدالی اور شوربے ہنگم روز سننے میں آتا ہے، الفاظ کی اندھا دھند برسات ہوئی ۔ سوشل میڈیا کو دیکھئے تو یہاں کا بھی حال گفتنی نہیں ہے۔جس کثرت سے ہمارے یہاں سوشل میڈیا کا استعمال ہورہاہے،شاید ہی کہیں اور ہوتا ہو ۔ہم بھی تو اکثر فارغ لوگ ہی ہیں اور وقت گذاری کے لئے ہم رات دیرگئے تک اسی عمل میں مست ومدہوش نظر آتے ہیں۔ کیا امیر کیا غریب کیا چھوٹا کیا بڑا ،کیا میاں کیا بیوی ،کیا والدین کیا اولاد سبھی ایک دوسرے سے بے خبر و بے گانہ اسی کام میں لگے ہوئے ہیں۔افسوس تو زیادہ اُس وقت ہوتا ہے ،سبھی تو نہیں البتہ بہت سارے صاحبان منبر ومحراب جب اپنی تقاریر میں اُچھل اُچھل کر اپنے عقیدت مندوں کی واہ واہ کے حصول کے لئے کچھ ایسی حرکتیں کرتے ہیں، عقل وخرد سر پکڑ کے رہ جاتے ہیں۔وہ اسی منصب پر فائز کسی ایسے دوسرے صاحب پر چڑھ دوڑتے ہیں جو اُن کی فکر و مشرب سے وابستہ نہ ہو۔ تو پھر وہاں سے بھی بھلا گل باریاں کیا ہوں گی۔ طعن، تمسخر و استہزا، عیب جوئی اور اتہامات والزامات کے تیر برسنے شروع ہوتے ہیں اور دونوں کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ تم ہو کون، علم سے تیرا دو ر کا بھی واسطہ نہیں۔ نرے اَن پڑھ ہو،پھر دونوں کے جیالے لنگر لنگوٹے کس کے سوشل میڈیائی میدان میں آکر ایک دوسرے کو پانی پی پی کر کوسنے کا عمل شرو ع کردیتے ہیں ۔ بھلا بتائے کہ جن لوگوں کا کام انسانی شعور کو بیدار کرنا تھا، صبر وضبط کے حوالہ سے آگہی دلانی تھی،باہم وسعت قلبی سے ایک دوسرے کو سننے کا درس ذریں دینا تھا ،شیریں کلامی سکھانی تھی ،محبت ومودّت کی گلباریاں کرنی تھی،اخلاق عالیہ سکھانے سمجھانے کا کام جنہیں کرنا تھا، غصہ وطیش پر قابو پانے کے اسلامی اور اخلاقی ہدایات سے آشنائی دلانی تھی، انتشار وافتراق سے دور رہنے کے دروس ملت ومعاشرہ کو سنانے تھے، ایک دوسرے کو سننے اور برداشت کرنے کا سبق پڑھانا تھا۔ وہی لوگ آستینیں چڑھائے اور منہ سے جھاگ نکالتے ہوئے باہم آمادہ بہ جنگ ہوں تو آیت استرجاع کا ورد کئے بغیر کریں تو کیا کریں؟
قلم کو تھامے رکھا ہوں ۔دعویٰ پر دلائل دینے پر آجائوں یہ ہوکیا رہا ہے، میرے خیال میں ضبط سخن بھی نہیں اور مناسب بھی نہیں۔ہم سب پر ہر بات عیاں ہے کہ اسلامی اجتماعیت و وحدت کے قیام کے لئے کاوشیں کرنا تو دور کی بات اس حوالہ سے سوچنا بھی اس قبیل کے لوگوں نے شاید بند کیا ہوا ہے۔منبروں پر اُچھلنا ، محرابوں میں بازو لہرانا اور مجالس میں ایک دوسرے کو چیلنج دینا ان کا مشغلہ بن گیا ہے۔اصل میں یہ لوگ ایک دوسرے پر برس کر اپنے حامیوں ، حواریوں اور معتقدین کے دلوں میںجوش وجذبہ پیدا کرنے کے لئے یہ سب کچھ کرتے ہیں۔اللہ بچائے ان کے منہ سے نکلے الفاظ نقل کیا کریں کہ قلم وقرطاس بھی خون کے آنسو روئیں ،بس ایک مثال ادب کے دائرے میں رہ کر بیان کروں کہ اسی قبیل کے ایک صاحب اپنے سامعین کے جھرمٹ میں شادی کے بعد ایک میاں بیوی کے درمیان ہوئی کسی اَن بن کی بات کررہے تھے۔خطاب کے گھوڑے پر سوار تھے ۔الفاظ پر قابو رہ نہ سکااور ایسی بات کہہ گئے کہ میںخود اہل خانہ کے درمیان واللہ پانی پانی ہوکر دوسرے کمرے کا راستہ لینے پر مجبور ہوگیا۔یاد رہے یہ دینی مزاج اور دعوت کا اسلوب نہیں ہے یہ شقاوت ہے،بد اخلاقی ہے۔زبان کے فتنوں میں یوں ایسے لوگ کوئی ہمالہ سر نہیں کرتے بلکہ اُنہیں فطرت وجبلت کے فساد کے سواکچھ ہاتھ آتا نہیں۔ اور اپنا آپا کھونے کے ساتھ ہی اعتبار ووقار بھی کھو دیتے ہیں۔درست کہی ہے کسی نے یہ بات ؎
لگے منہ بھی چڑانے ٗ دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دھن بگڑا
یاد رہے اخلاقیات میںفساد در آئے توانتشار ہی جنم لے گااور ایسے لوگ جنہوں نے پارسائی کا لبادہ اُوڑ ھ رکھا ہوتا ہے،پرہیز گاری کی ملمع کاری کی ہوتی ہے، جب بولتے ہیں تو بے نقاب ہوکے رہ جاتے ہیںاور ظرف کے اندر جو کچھ ہوتا ہے سب کھل کر سامنے آتا ہے۔ایک صاحب قلم نے خوب لکھا ہے کہ کچھ لوگوں کے پاس افتخار کے ساتھ جینے کے لئے علم نافع ، عمل صالح اور ورع وتقویٰ کا سرمایہ نہیں ہوتا۔لہٰذا وہ دوسروں کی تحقیر ، توہین وتذلیل کرکے اپنے نفس کی زمین شور کو بزعم خود تسکین پہچانے کا کام کرتے ہیں۔
ہائے!کہاں گئے وہ دن جب ہمارے علماء جس بھی مکتب فکر سے منسلک ہوتے ،پوری تیاریاں کرکے منبروں پر جلو ہ افروز ہواکرتے تھے، لباس بھی موزون ہوا کرتا تھا۔الفاظ کی حد بندیاں اور اُن کا حسن انتخاب کوئی اُن سے سیکھ لیتا ۔وہ بھی ایک دوسرے سے اختلاف کرتے تھے مگر مجال ہے کہ کوئی ایسی بات بھی زبان سے نکلتی جو سوئے ادب کے زمرے میں آجاتی۔خود ان آنکھوں نے دیکھا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے ملتے تو کس تپاک سے ملتے اور باہم بغل گیر ہوتے۔ مگر واحسرتا!آج یہ سب کچھ ایک خواب لگتا ہے یا کوئی فسانہ ۔شاید کبھی لکھ چکا ہوں کہ ایک روز اموی خلیفہ ہارون رشید جمعہ کے موقع پر جامع مسجد میںحاضر ہوا۔امام صاحب کے پاس گیا اور اُن سے کہا کہ آج تمہیں کھلی چھوٹ ہے میری خامیوں اور کوتاہیوں کو اُجاگر کرلو،کوئی پکڑ دھکڑ نہیں ہوگی۔ امام صاحب خوشی سے پھولے نہ سمائے،لگے منبر پر اُچھلنے اور عوام داد وتحسین بٹورنے، آپا کھودیا ،صحت مند تنقید کے دائرے سے باہر آئے، حدود کراس کرلئے اور ایسے باتیں بھی کرنے لگے کہ لوگ ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ ہارون مجسمہ ٔ صبر بنا رہا،زبان پر مہر سکوت تھا ۔ لوگ سمجھ گئے پتہ نہیں کہ اب امام صاحب پر کیا گذرے گی۔ نماز کی ادائیگی ہوئی ہارون امام صاحب کے پاس گئے اُن کے ساتھ بغل گیر ہوئے، جھٹ سوال کیا،امام صاحب! کیا میں فرعون سے زیادہ بُرا ہوں؟اُس نے استغفراللہ کہا،اور کہاآپ یہ کیا فرما رہے ہیں۔ ہارون نے کہا اچھا میں فرعون سے زیادہ بُرا نہیں تو کیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بڑا ہے؟ امام صاحب تھرایا،کہنے لگا میری کیا مجال کہ ایسا خیال بھی میرے ذہن میں آئے اور میرے اسلام پر بھی سوالہ نشان لگ جائے، تو پھر ہارون بولا کہ پھر سُن،جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے اپنے بد ترین دشمن کے پاس بھیج دیا تو یوں کہا :اُس کے پاس جا {فَقُوْلَا لَہ قَوْلًا لَّیِّنًا}یعنی : جب اُس سے بات کروگے تو نرم بول بول لینا‘‘امام صاحب نے بات سنی آب آب ہوا۔ ہارون بولا، امام صاحب بات کرنے اور دعوت کا یہ قرآنی اسلوب سیکھ لو تو نتائج اچھے آئیں گے۔کیا ہمارے ان کچھ صاحبان منبرومحرب کے کانوں میں بھی یہ بات جائے گی، تاکہ وہ دعوت کے اسلوب اور اختلاف کرنے کے آداب سے بھی واقف ہوتے ۔ آج بھی جب منبر ومحراب سے ایسے لوگوں کی چیخیں ، دھاڑیں اور آستینیں چڑھانے کے مناظر دیکھنے سننے کو ملتے ہیں تو ایک صدا اور بھی سنائی دیتی ہے:أَلَیْسَ مِنکُمْ رَجُلٌ رَّشِیدٌ؟ کیا یہ قرآنی صدا ہم بھی سن رہے ہیں؟
مولانا محمد صادق سیالکوٹی ؒ بہت پہلے لکھ چکے ہیں : ’’فرض کیجئے کہ ایک بہت بڑا عالم ہے،اُس کی زبان سے بداخلاقی کالاوا بہتا ہو، اس کے لاوے سے نہ صرف اُس کے علم کا سمندر ہی خشک ہوکر کھائیوں ، کھڈوں اور غاروں میں تبدیل ہوتا ہے بلکہ عام لوگوں اور اس عالم کے درمیان نفرت ونفرین کا ایک تپتا ہوا ریگ زارظہور پذیر ہوگا۔ جس کے نتیجہ میں نہ وہ اُس عالم کے علم سے مستفید ہوسکیں گے اورنہ ہی وہ عالم علم کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہوسکتا ہے۔اس طرح سوء اخلاق کی خرابیوں کے پیش نظر آپ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کے لئے حسن اخلاق اور آدمیت کی قدر لابدی ہے۔آدمیت اپنے عروج وارتقاء اور فلاح وبقا کے لئے کس درجہ حسن خلق کی محتاج ہے۔‘‘
یاد رہے کہ لوگ عام عوام میں کوتاہیوں، خامیوں کو تو برداشت کرلیتے ہیں لیکن علماء کی گرفت کرنے میں لمحہ بھر کا توقف نہیں کرتے ۔سو طقہ ٔ علما کو بولنے سے پہلے ہزار دفعہ باتوں کو تولنا ہوگا۔ بحمداللہ جنہیں علماء کہا جائے وہ لازماً اعلیٰ اخلاق سے مزین ہوتے ہیں۔اُن کے منہ سے محبت ومودّت کے پھول جھڑتے ہیں ،نفرتوں کی آگ نہیں برستی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلوب دعوت کو سمجھنے کی توفیق رفیق سے نوازے۔
(رابطہ ۔7006055300)