الطاف صوفی
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں موسموں کی شدت ہر سال نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے ۔سورج کی تپش ہ لو کی لپٹ ،بجلی کی آنکھ مچولی اور پانی کی قلت نے زندگی کو آزمائش بنا دیا ہے ۔خاص طور پر ہمارے جیسے ترقی پدیز ملکوں میں ۔ایسے میں جب محکمہ تعلیم کے ذمہ داراں گرمی کی شدت کے پیش نظر اسکولوں میں گرمائی تعطیلات کا اعلان کرتی ہیں تو ہمیں وقتی طور پر راحت ضرور ملتی ہے ۔طلبہ کی صحت محفوظ رہتی ہے ،اساتذہ کو سکون کا سانس ملتا ہے اور تعلیمی ادارے توانائی کو بچا لیتے ہیں ۔ایک سوال یہ ہے کہ کیا یہ مسئلے کا اصل حل ہے؟گرمائی تعطیلات ایک وقتی انتظام ہوسکتی ہے مگر اصل حل نہیں ۔جہاں تک گرمائی تعطیلات کا تعلق ہے تو اگر ایک طرف اس کے کئی مثبت پہلو ہیں تو دوسری طرف اس کے منفی پہلو بھی سامنے آئے ہیں ۔
مثبت پہلو:سخت گرمی میں اسکول جانا بچوں کے لئے جسمانی طور پر نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے ۔جیسے ہیٹ سٹروک اور ڈی ہائڈریشن وغیرہ ۔یہاں پر اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ گرمائی تعطیلات کی وجہ سے جو بچے اسکول سے دور رہتے ہیں وہی بچے دن بھر اسی اسکول کے گراونڈ میں کرکٹ کھیلتے رہتے ہیں ۔
اساتذہ اور اسکول کے باقی اسٹاف کو گرمی سے راحت ملتی ہیں اور انہیں روز اسکول نہیں آنا پڑتا ۔لیکن دوسری طرف باقی محکموں کے ملازمین اسی چلچلاتی دھوپ میں اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں ۔
منفی پہلو: گرمائی تعطیلات کی وجہ سے بچوں کا وقت ضائع ہوجاتا ہے اور ان کے معمول کے کام میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے ۔کچھ بچے تو چھٹیاں ختم ہونے کے بعد بھی اسکول نہیں آتے کیونکہ وہ گھر سے دور رشتہ داروں کے پاس گئے ہوتے ہیں ۔
پوری دنیا میں اوسطاً درجہ حرارت بڑھ رہا ہے ۔ایسے میں ہمیں گرائی تعطیلات کا متبادل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے ۔ایسے اقدامات جن سے بچوں کی صحت پر بھی اثر نا پڑے اور اسکولوں کو بند کرنے کی ضرورت بھی نا پڑے ۔اس میں سب سے پہلے موسم کے مطابق اوقات کار میں تبدیلی ہے ۔اگر گرمی بڑھ رہی ہے تو مارننگ ٹائم رکھ کر اس مشکل پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ ٹائم ٹیبل کو اس طرح ترتیب دیا جاسکتا ہے کہ بچوں کو اسکول کم سے کم کتابیں اور نوٹ بکس ساتھ لاکر آنا پڑے ۔جس سے ان کی تھکاوٹ کم ہوسکتی ہے ۔
اسکولوں میں صاف پانی کا وافر انتظام ہونا چاہیے تاکہ بچوں کو راحت مل سکیں ۔ کلاس رومز کے اندر پنکھوں کا انتظام ہونا چاہیے تاکہ گرمی کا زور کم کیا جاسکے ۔ اسکو ل احاطے میں وافر مقدار میں درخت موجود ہو تاکہ بچے ان درختوں کے سائے میں بیٹھ سکیں ۔ طلبہ کو موسمی حالات سے نمٹنے کی تربیت فراہم کرکے ہم ان کے لئے اسکول میں وقت گزارنا آسان بنا سکتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ ہمیں اسکول کا ماحول ایسا بنانا ہے کہ بچہ اسکول سے دور رہنے کے بارے میں سوچ ہی نہ پائے بلکہ اسے اسکول میں رہنا ہی پسند ہو ۔
گرم موسم کی وجہ سے جو مشکلات ہمیں درپیش ہیں ،ان میں ہر سال کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی دیکھنے کو ملے گا۔ لہٰذا ہمیں تعطیلات سے بڑھ کر متبادل طریقے اپنانے چاہیے ۔تین مہینوں کی سرمائی تعطیلات کے بعد ایک مہینہ گرمائی تعطیلات کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے ۔بلکہ اس کے برعکس ہمیں سرمائی تعطیلات کے دورانیہ کو بھی کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کا قیمتی وقت ان تعطیلات کے نظر نہ ہوجائے ۔اس کے لئے ضروری ہے کہ اسکولوں کا انفراسٹریکچر موسم کے مطابق ہو ۔محکمہ تعلیم کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس ضمن میں اقدام اٹھائے ۔یہ ایک المیہ ہے کہ ستر سال گزرنے کے بعد بھی محکمہ تعلیم کے ذمہ داروں کو یہ عذر پیش کرنا پڑتا ہے کہ چونکہ ہمارے اسکولوں میں بہترین سہولیات میسر نہیں ہیں اس لئے سرکار کو یہ اقدام اٹھانا پڑا کہ ہم نے اسکولوں کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اسکولوں میں تمام تر ضروری سہولیات میسر رکھیں تاکہ ہمارے اسکول کسی بھی موسم میں بنا کسی رکاوٹ کے چلتے رہیں اور ہمیں لومڑی کی طرح انگور کھٹے ہونے کا بہانہ نہ کرنا پڑے۔
([email protected])