محمد عرفات وانی
اکنگام اننت ناگ کے افسانہ نگار اور قلم کار فاضل شفیع بٹ نے حال ہی میں اپنی تصنیف ’’گردِ شبِ خیال‘‘ افسانوی مجموعہ ، شائع کی ہے ،یہ کتاب ایک ادبی خزانہ ہے جس میں مختلف افسانوں کی ایک شاندارترتیب پیش کی گئی ہے۔ ہر افسانہ اپنےمنفردانداز، خوبصورتی اور گہرائی کے ساتھ قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ افسانوں کی زبان سادہ اور دل کو چھو لینے والی ہے، جو نہ صرف تفریح فراہم کرتی ہے بلکہ قاری کو زندگی کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے کی ترغیب بھی دیتی ہے۔ ان افسانوں میں انسانی جذبات، سماجی مسائل اور فطرت کے حسین مناظر کو اس خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ہر افسانہ ایک نئی دنیا کی مانند محسوس ہوتا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ادبی ذائقہ کے شوقین افراد کے لیے بلکہ ہر عمر کے قاری کے لیے ایک بہترین انتخاب ہے۔
اردو ادب کی افسانوی دنیا میں ایک ایسا نام جو نہ صرف اپنی تخلیقات سے قاری کے ذہن و دل کو مسخر کر لیتا ہے بلکہ انسانی جذبات، سماجی حقائق اور نفسیاتی پیچیدگیوں کی گہرائیوں میں جا کر ان کا عمیق جائزہ پیش کرتا ہے۔ فاضل شفیع بٹ کا افسانوی مجموعہ ’’گردِ شبِ خیال‘‘ اردو ادب کا ایک شاہکار ہے جو اردو زبان و ادب کے چاہنے والوں کے لیے ایک خوبصورت تحفہ ہے۔یہ کتاب صرف افسانوں کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہمارےمعاشرتی حقائق،مسائل اور انسانی احساسات و جذبات کے گہرے رنگ جھلکتے ہیں۔ تحریریں اس قدر پُراثر ہیں کہ قاری ہر افسانے کے ساتھ اپنے جذبات، اپنی دنیا اور اپنے اردگرد کی حقیقتوں کو نئے زاویے سے دیکھتا ہے۔ 25 افسانوں پر مشتمل اس کتاب کا ہر افسانہ ایک الگ حقیقی، جذباتی، دنیاوی اور فکری منظر پیش کرتا ہے۔ یہ افسانے محض کہانیاں نہیں، بلکہ ادب کی اعلیٰ روایت کا نمونہ ہیں اور دل کی گہرائیوں تک اتر جاتی ہیں۔ہر افسانہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتا ہے، خواہ وہ سماجی ناانصافیاں ہوں، انسانی جذبات کا المیہ ہو، یا مذہبی و اخلاقی مسائل۔ زبان سادہ، مگرپُراثر ہے۔ تحریریں قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہے اور اس کے دل و دماغ پر ایک دیرپا تاثر چھوڑتی ہے۔’’گردِ شبِ خیال‘‘ فاضل شفیع بٹ کی وہ تخلیق ہے جو انہیں اردو افسانوی ادب میں ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ ان کی تحریریں انسان کی ذہنی، روحانی اور جذباتی دنیا کی عکاسی کرتی ہیں اور قاری کو ادب کی گہرائیوں میں لے جاتی ہیں۔
افسانوں کا مختصر جائزہ پیشِ خدمت ہے:(۱) ٹریلر: اس افسانے میں داڑھی کی روحانی اور سماجی حیثیت کو باریکی سے بیان کیا ہے اور اس تضاد کو اُجاگر کیا گیا ہے کہ کس طرح آج داڑھی کا مقصد محض فیشن بن کر رہ گیا ہے۔(۲)ذبیحہ : یہ افسانہ قربانی کے فلسفے پر گہری روشنی ڈالتا ہے، اور یہ سبق دیتا ہے کہ قربانی دکھاوے یا رسم کے طور پر نہیں بلکہ خالص نیت اور ایمان کا حصہ ہونی چاہیے۔(۳)کفرانِ نعمت: یہ افسانہ بیٹی کے مقام کی عظمت کو بیان کرتا ہے۔مصنف نے اس افسانے کے ذریعے یہ سبق دیا ہے کہ بیٹی اللہ کی عظیم نعمت ہے اور اسے وہی عزت ملنی چاہیے جو بیٹے کو دی جاتی ہے۔(۴)بنجر پور کا قبرستان: یہ افسانہ گاؤں کی سادگی اور محبت کو شہر کی مصنوعی چمک دمک پر فوقیت دیتا ہے اور یہ دکھاتا ہے کہ گاؤں کی محبت ہمیشہ دل کے قریب رہتی ہے۔(۵)کمائی : محنت اور سچائی کی عظمت کو اُجاگر کرتا یہ افسانہ قاری کو رشوت اور بےایمانی کے نقصانات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔(۶) شب خون:اسلامی اصولوں کی روشنی میں جائیداد کے مسائل کو بیان کرتا یہ افسانہ انصاف اور حقوق کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔(۷)تاریک لحد: اس افسانے میں اپاہج افراد کی تنہائی اور ان سے نفرت کا گہرا منظر پیش کیا ہے۔ وہ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ کس طرح معذور افراد کو معاشرتی طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ ان کے اپنے خاندان والے بھی ان سے محبت نہیں کرتے۔ اس افسانی میں معذوری کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو کہ ایک تلخ حقیقت ہے۔(۸)بازار گانان مرگ: یہ افسانہ انسان کی بے خودی اور نا امیدی پر گہرے پیغامات دیتا ہے کہ نا امیدی کفر ہے اور انسان کو کبھی بھی امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے ہمیں زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کرنا چاہیے کیونکہ دنیا امید پر جیتی ہےاور ڈاکٹروں کی لاپرواہی اور اپنے فرائض سے بے رُخی سے نجی کلینکوں پر مریضوں کو لوٹ سے کس طرح ایک حاملہ عورت کی امیدوں کو دفن کردیا جاتا ہے ۔(۹)رینگتا جہنم: یہ افسانہ معاشرتی اعتماد کے ٹوٹنے کی شدت کو عیاں کرتا ہے۔ ایک شخص کی عزت، جو ایک لمحاتی غفلت سے برباد ہو گئی، یہ سبق دیتی ہے کہ کسی پر اندھا بھروسہ ہماری زندگی کو جہنم میں بدل سکتا ہے۔(۱۰)روغنِ شفاء : اُن فٹ پاتھوں پر بیٹھے دوائی فروشوں کی حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے جو معصوم لوگوں کو اپنی باتوں کے جال میں پھنسا کر دھوکہ دیتے ہیں۔ یہ کہانی صرف ایک سبق نہیں بلکہ ایک انتباہ ہے کہ صحت کے معاملے میں کوئی بھی سمجھوتہ جان لیوا ہو سکتا ہے۔(۱۱)یمان کی حرارت: مصنف اس کہانی میں ثابت کرتے ہیں کہ نیک نیتی سے کی جانے والی کوششیں اکثر معاشرتی مخالفت کا سامنا کرتی ہیں۔ یہ افسانہ ہمیں حوصلہ دیتا ہے کہ زندگی کے کسی بھی مقام پر نیکی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔(۱۲)نو اوبجیکشن می لارڈ: یہ افسانہ نشے کے مہلک اثرات کو بیان کرتا ہے، جو نہ صرف انسان کی زندگی بلکہ اس کے خاندان کو بھی برباد کر دیتا ہے۔ فاضل شفیع بٹ نے نشے کی حقیقت کو نہایت مہارت سے بیان کیا ہے، جو قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔(۱۳) شکستِ آرزو : یہ افسانہ ایک جذباتی کہانی ہے جو ہمیں والدین کی قدر اور ان کے خوابوں کی اہمیت کو سمجھنے کا سبق دیتی ہے۔ یہ کہانی بتاتی ہے کہ کس طرح اولاد کی نادانیاں والدین کے دل کو توڑ سکتی ہیں۔(۱۴)گند کے کیڑے: یہ کہانی مکافاتِ عمل کو اجاگر کرتی ہے۔ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے جو انسان کو ایک نہ ایک دن اپنی گرفت میں لیتا ہے۔(۱۵)رِستے ناسور: یہ افسانہ ایک المیہ پیش کرتا ہے کہ انسان کی حقیقی قدر اس کے مرنے کے بعد ہی کی جاتی ہے۔ یہ کہانی انسانیت کے وہ پہلو عیاں کرتی ہے جو آج کے دور میں دھندلا چکے ہیں۔(۱۶)ردّی کاغذ: اُن لوگوں کے لیے ایک یاد دہانی ہے جو کتابوں کو بے وقعت سمجھتے ہیں۔ اس کہانی کے ذریعے علم اور کتابوں کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔(۱۷)منحوس چرخہ: یہ کہانی اندھے اعتماد کے نتائج پر مبنی ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ زندگی میں احتیاط اور تدبر کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔(۱۸)مایا کا کھیل: یہ افسانہ انسانی معاشرت کی منافقت اور دنیاوی فائدے کے لیے دوسروں کے پیچھے بھاگنے کی حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے۔(۱۹)جرمِ ضعیفی: یہ کہانی ان لوگوں کی حقیقت کو سامنے لاتی ہے جو مذہب کے نام پر دھوکہ دیتے ہیں۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ ایمان صرف عبادات سے نہیں بلکہ نیت اور عمل سے وابستہ ہے۔(۲۰) رہائی: یہ افسانہ انسانی آزادی کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے اور اُس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ کسی کو غلام بنانا انسانیت کے خلاف ہے۔(۲۱)کالی کوکھ کا دکھ: یہ افسانہ ناجائز اولاد کے مسائل اور ان کے ساتھ ہونے والی معاشرتی زیادتیوں کو نہایت سنجیدگی سے بیان کرتاہے۔(۲۲)خواب شہر: یہ افسانہ گاؤں کی پرسکون اور محبت بھری زندگی کو شہروں کی مصنوعی چمک دمک سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔(۲۳) آخری جزیری: یہ کہانی نشے کے زہریلے اثرات کو ایک نہایت جذباتی انداز میں بیان کرتی ہے۔(۲۴)طلسمی کانگڑی: یہ کہانی انسانی قربانی، سادگی، اور ایمانداری کے فلسفے کو نہایت خوبصورتی سے بیان کرتی ہے۔(۲۵)ناکردہ گناہ: یہ افسانہ موجودہ دور کے ایک اہم مسئلے، یعنی سوشل میڈیا کے غلط استعمال پر روشنی ڈالتا ہے۔اختتامیہ : ’’گردِ شبِ خیال‘‘ محض ایک کتاب نہیں بلکہ ایک ایسا خزانہ ہے جس میں قاری کو اپنی زندگی کے مختلف رنگ اور مسائل کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ یہ کتاب ہر قاری کے لیے ایک انمول تحفہ ہے۔ فاضل شفیع بٹ کو اس عظیم کارنامے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ ان کا قلم ہمیشہ ادب کی روشنی پھیلائے۔
(رابطہ۔9622881110)
[email protected]