سپریم کورٹ نے اپنے ایک تازہ فیصلے میں غیر ازدواجی تعلقات کو قابل تعزیر نہیں مانتے ہوئے ہندوستانی قانون کی ۷۵ سال پرانی شق کو مسترد کر دیا ہے ۔اس فیصلے کے مطابق ایوان عدل نے شادی شدہ ہونے کے باوجود ناجائز تعلقات قائم کرنے والوں کو ناجائز تعلقات قائم کرنے کے لئے فری کردیا ہے ،یعنی اب کوئی بھی شادی شدہ عورت بے چون و چرا کسی بھی غیرمرد کی آغوش میں جا سکتی ہے ۔ہم ملکی عدالتوں کا احترام کرتے ہیں لیکن ایوان عدل کے فاضل جج صاحبان سے بصد ادب و احترام سوال کرتے ہیں کہ ہم کس دیش کے باسی ہیں اور کس تہذیب کو مانتے ہیں ؟مشرق کو یا مغرب کو ؟ سبھی جانتے ہیں کہ ہماراپیارا ملک کثیر المذاہب ہے ، یہاں ہندو مسلم برادران مل جل کر رہتے ہیں ،مل جل کر تیوہار مناتے ہیں۔اسلام میں تو ایسے تعلقات حرام ہیں ۔سوال یہ ہے کہ کیا اس فیصلے سے جنسی جرائم اور نہیں بڑھیں گے ؟ بے شرمی بے حیائی اور بے غیرتی کیا پہلے کم تھی کیا یہ اور نہیں بڑھ جائے گی ؟خاندانوں میں تنازعات اور انتشار نہیں بڑھ جائے گا ؟سماج میں جنسی الجھنیں کم ہوں گی یا بڑھ کر عدالتوں میں مقدمات کی تعدادمیں اضافہ کریں گی ؟کیا مشرقی تہذیب کے دلدادہ ہمارے پیارے ملک ہندوستان کا ہندوستانی معاشرہ مزید تباہ و برباد نہیں ہوگا ؟کیا یہاں کے لوگوں کے رشتۂ ازدواج کے تقدس پر آنچ نہیں آئے گی ؟ہمارا ملک گنگا جمنی تہذیب والا ملک کہلاتا ہے ’’ہم اس دیش کے باسی ہیں جس دیش میں گنگا بہتی ہے‘‘۔ ہم سب ذرا سوچیں گنگا جمنا تہذیب کیا کہتی ہے ؟بھارت ماتا کیا کہتی ہے؟سیتا اورگیتا کیا کہتی ہے؟اس اہم سوال پر سبھی برادران وطن بشمول ایوان ِعدل کے فاضل جج صاحبان کو غور وفکر کرنا چاہئے کہ اس فیصلے سے اخلاقی طور کرپٹ لوگوں کو کتنی بے قید آزادی ملے گی؟ان سارے سوالوں پر جو ہماری تہذیب سے جڑے ہوئے ہیں ہم سب برادران وطن کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور سنجیدہ شہریوں اور عدالت کے قابل احترام جج صاحبان سے بصد ادب و احترام درخواست کرنا چاہئے کہ ملک و قوم کے مفاد میں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔
رابطہ :مندروالی گلی نمبر ۸ ،جینتی پور کرولہ۔ مرادآباد
موبائل نمبر 9258913511