مہنگائی اور گراں فروشی کی وباء دن بہ دن کیوں بڑھتی جارہی ہے،اس بارے میں یہی کہا جارہا ہے کہ کاروبار و تجارت سے سے وابستہ ایک خود غرض و بے ضمیر طبقہ حکومتی انتظامیہ کی بدنظمی اور غیر سنجیدگی کا فائدہ اُٹھاکر عوام الناس کو لوٹنے کا قصد کرچکی ہے ،جس کے نتیجے میں اشیائے خورد و نوش سمیت تمام دیگرضروریات ِ زندگی کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیںاور ان کی بلیک مارکیٹنگ زور و شور سے جاری ہےجبکہ سرکاری نرخ ناموں کو ردی کاغذ جیسی اہمیت بھی حاصل نہیں۔اس صورتِ حال میںکم آمدن والے لوگوں کا جینا حرام ہوچکا ہےاور کسی بھی مفلوک الحال کنبے یا عیال دار شخص کے لئے روح اور جسم کا رشتہ قائم رکھنا انتہائی مشکل بن رہا ہے۔
ظاہر ہے کہ کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے جن لوگوں کی قوت خرید پہلے ہی جواب دے چکی ہے ،ایسے لوگوں کو خود غرض دکاندار کھانے پینے کی عام چیزوں کے منہ مانگے دام وصول کرکے مزید پستی کی سطح پر لارہے ہیں۔ شائد وہ اس بات کو بھول رہے ہیں کہ اس طرز عمل سے وہ اپنے لئے قہر ِ الٰہی کو بھی دعوت دے رہے ہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک جانب غریب عوام بالخصوص یومہ اجرت پر گذر اوقات کرنے والے مزدور ،کاریگر اور معاشی طور پر کمزور طبقے موسم ِ سرماکی شدید سردیوں کے دوران روز گار سے محروم ہوجاتے ہیںکیونکہ بارشوں اور برف باری میں اُن کے لئے کام کاج کی تمام راہیں مسدود ہوجاتی ہیں تو دوسری جانب نفس پرستی میں غرق یہ خود غرض ناجائز منافع خور دکاندار اورتاجرمختلف حیلے بہانوں کی آڑ میں اُن سے ہرچیز کے منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں۔مصیبت بالائے مصیبت یہ کہ بغیر کسی خوف و کھٹکےیہ سب کچھ کھلے عام ہوتاہےاور قانون کی زبان گنگ اور آنکھیں بندرہتی ہے۔کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ گران بازاری کرنے والوں سے اپنا ہفتہ وصول کرنے والےاس استحصال میں تن و من شریک رہتے ہیںاور عوام الناس کو حالات کے رحم و کرم پر چھور دیتے ہیں۔تعجب و تاسف کی بات ہے کہ گران فروشی کی آڑ میں عوام الناس کا خون چوسنے والے اپنے ہم وطن امر حق سے باخبر ہیں کہ وہ ایک طویل عرصے سے بے روز گاری اور محدودذرائع آمدن کے سبب درد و اضطراب میں مبتلا ہیں،لیکن گراں فروش اور ناجائز منافع خور ان تلخ حقائق کو نظر انداز کرکے اپنے خود غرضی ،بے ضمیری اور بے مروتی کا خوب مظاہرہ کرتے ہیں اور گاہکوں کو کند چھری سے ذبح کرنے سے باز نہیں آتے۔
حالانکہ زندہ قوموں کا شیوہ اور شعار یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے تئیں شفقت و رافت کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہیں ،اپنی انسانی حمیت اور قومی غیرت کے بل پر ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹنا اُن کا وظیفہ ٔ حیات بنا رہتا ہے اور وہ اخوت ،ہمدردی اور ایثار کی روشن مثالیں قائم کرتے ہیں۔مگر ہمارے یہاںاس کے علی الرغم اس قدر اُلٹی گنگا بہتی ہے کہ مروت کے بجائے مُردہ ضمیری استحصالی عناصر کا اوڑھنا بچھونا بنتا رہتا ہے۔آج کل یہی نا خوشگوار منظر تقریباً ہر دوکاندار اور ریڑھے بان کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔حق یہ بھی ہے کہ جب بھی یہاں ناگہانی آفات کا نزول ہو ایا سیاسی اتھل پتھل عروج پر رہی تو لوگوں نے قدمے ،درمے ،سخنے ایک دوسرے کی اعانت کرنے میں کوئی بخل نہ دکھایا لیکن عام حالات میں اس عموم کا فقدان کیوں نظر آرہا ہے ،اس پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
باشعور عوام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ از راہِ انسانیت خودغرض و بے ضمیر گران فروشوں ،ناجائز منافع خوروں کو ہر ممکن یہ احساس دلانے کی کوشش کریںکہ وہ اپنے ہم وطنوں کا خون چوسنے کا چسکہ چھوڑدیں اور اُن لوگوں پر رحم کریں جو بےروزگاری اور ذرائع آمدن کی کمی کے باعث نانِ شبینہ کے محتاج بن رہے ہیں۔گوکہ اس قماش کے تاجروں اور دکانداروں کو کنٹرول کرنے کے لئے امور صارفین کا محکمہ اورمحکمہ پولیس یہاں موجود ہے ،تاہم یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ان دو محکموںکی مصلحتوں ،مفادات اور عدم دلچسپی کی وجہ سے ہی لالچی عناصر کی شکل میں گران بازاری اور مہنگائی کی عفریت ہر کوچہ و بازار میں دندناتی پھر رہی ہے۔