منتظر مومن وانی
جہاں ہر روز سیاسی سٹیجوں،ملکی ایوانوں اور سیاسی نگریوں سے نوجوانوں کو روزگار دے کر ملک کو خوشحال بنانے کے کھوکھلے دعوے سننے کو ملتے ہیں وہی پر’’ہوتا ہے شب وروز تماشا میرے آگے‘‘ جیسا احساس بھی ہم سب محسوس کرتے ہیں. پریس کالونی سرینگر میں جہاں روز کئی محکموں میں عارضی ملازمین اپنی بے بسی پر ماتم کرتے نظر آتے ہیں وہیںپر محکمہ دیہی ترقی میں کام کررہے گرام روزگار سہایک بھی طویل عرصے سے لوگوں کی خدمت میں کمر بستہ ہوکر آج اسی ماتم کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔دیہی ترقی دفتر میں خون پسینے سے کام کرنے والے اعلی ڈگری یافتہ نوجوان آج تک اس امید میں دن رات کام کرتے تھے کہ ہمارا مستقبل یہاں محفوظ ہے ۔لیکن انتظامیہ کی گنگا ہمیشہ الٹی ہی بہتی نظر آتی ہے ،اسی لئے یہاں کا نوجوان ہمیشہ وقت اور ہر طرح کی توانائی داو پر لگا کر بھی خسارے میں رہتا ہے۔مرکزی حکمنامے کے مطابق اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو دیہی ترقی دفاتر میں جی آر ایس کے طور طویل وقت پر تعینات کیا گیا،جی آر ایس کو متعلقہ ڈپٹی کمیشنر صاحبان کی نگرانی میںمیرٹ حاصل ہونے پر یہ روزگار دیا گیا۔ اب زندگی کا آدھا حصہ مکمل ہونے کے بعد بھی یہ نوجوان اپنا حقیقی حق حاصل نہیں کرپارہے ہیں۔کیا مرکزی انتظامیہ کے سامنے ترقی کا مطلب نوجوانوں کی خوشحالی نہیں؟ میں جموں و کشمیر کے گورنر صاحب سے ادباً ملتمس ہوں کہ اعلی تعلیم یافتہ نوجوان کب اپنا حقیقی حق حاصل کریں گے۔یہ وہی نوجوان ملازم ہے جن کے کندھوں پر دیہی ترقی کی تمام ذمہ داریاں رہتی ہیں۔مطلب ہر طرح کے فارم بھرنا،لوگوں کو ہر طرح کی خدمت ،گھر گھر جاکر کام کی دیکھ بھال ،مختلف علاقوں میں کام کا جائزہ ،کثیر تعداد میں سرکاری حکمناموں کی تعمیل وغیرہ ۔یہ وہی قوم کے سپوت ہیں جنہوں نے کووڈ میں بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر دیگر ملازمین کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کام کیا۔اگر سرکار نے ان کے مستقلی کا ابھی سوچا نہیں تو پھر ان کو کہہ دیجیے کہ اس درد کی دوا کیا ہے ؟ اس وقت اب یہ لوگ اپنے عیال اور عمر کے مقررہ حد کا مسلہ لے کر کہاں جائیں گے؟ ان لوگوں کے سبب ہر ایک بلاک آج ترقی کا دعوا کرتا ہے،جس کے لیے ہر بلاک میں رہنے والا ایک ایک فرد گواہ ہے۔یہ وہی لوگ ہیں جو مختلف الیکشن میں بھی لوگوں کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں،سرکار کیوں ان کے عیال اور ان کی بے بسی کا تماشہ دیکھنے میں محو عمل ہے۔کیا یہ ضروری ہے کہ ملک کا تعلیم یافتہ نوجوان ہمیشہ سڑکوں پر اپنی بے بسی کا تماشہ کرے۔اگرچہ ملک کے دیگر ریاستوں میں ان کو معقول تنخواہ دیا جاتا ہے لیکن جموں وکشمیر میں ان کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیوں ؟ یہ نوجوان کووڈ میں بھی جان ہتھیلی پر لے کر لوگوں کی خدمت میں کمر بستہ تھے،یہ چور دروازوں سے تعینات نہیں ہوئے ہیں بلکہ انتظامیہ کے طریقہ کار کو اپنا کر یہ تعینات ہوئے۔ملک کی ترقی کا مطلب نوجوانوں کے مستقبل کی حفاظت ۔امید اس بات کی ہے کہ انتظامیہ جی آر ایس نامی روزگار رکھنے والے نوجوانوں کے ساتھ انصاف کرے گا،جی آر ایس نامی نوجوان محکمہ دیہی ترقی کی ہر ترقی کے ضامن ہیں۔کئی مہینوں سے احتجاج کررہے یہ ملازمین مکمل ہڑتال پر ہیں۔ جس کے سبب دیہی علاقوں کی کام پر سو فیصدی اثر پڑا ہے۔گائوں میں کوئی کام نہیں ہورہا ہے، کیا ان چیزوں سے ہماری ترقی زوال پزیر نہیں ہورہی ہے۔گورنر انتظامیہ کو چاہیے کہ اس مسلے کو سنجیدگی سے لے لیں تاکہ نوجوانوں کا مستقبل اور ہماری ترقی محفوظ رہے۔
(بہرام پورہ کنزر بارہمولہ۔رابط6006952656)
[email protected]