ہر گزرتے ہوئے پل کے ساتھ تاریخ مرتب ہور ہی ہے اور ۲۵۔۳۰؍برسوں سے تویہ اب آسمانوں میں نہ صرف سجائی جا رہی ہے بلکہ محفوظ بھی ہورہی ہے۔ایسے میں اب اسے مسخ کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔۲۰۰۲ء کے مسلم کش فسادات ،جو گجرات میں رونما ہوئے اور ہزاروں مسلمان اس کی بھینٹ چڑھ گئے،کو مرکزمیں مودی کی حکومت آنے کے بعد صرف ’فسادات‘ کہنے پر زور دیا گیا۔یہ کچھ غلط بھی نہیں ہے کہ چند ہندو برادران بھی ان فسادات میں ہلاک ہوئے تھے لیکن سرکاری سرپرستی اور پولیس کی حمایت سے کوئی انکار نہیں کر سکتاجو مسلمانوں کے خلاف روا رکھی گئی تھی۔اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اُس وقت کے وزیر اعلیٰ مودی کو بیشتر ممالک نے مسلسل۱۲؍برسوں تک ویزا جاری نہیں کیا جس میں سب سے آگے امریکہ تھا۔ایک آئینی عہدے پر رہتے ہوئے مودی تلملا گئے تھے اور اپنی اس شبیہ کو لے کر آج تک وہ پریشان تو رہتے ہیں لیکن پشیمان نہیں ہوتے۔اسی تلملاہت کو زائل کرنے کے لئے موقع ہاتھ لگتے ہی انہوں نے تقریباً ۵؍درجن ملکوں کا دورہ صرف ساڑھے تین برسوں میں کر ڈالااور جو مدت باقی ہے ممکن ہے کہ اس سے بھی زیادہ دورے کر لیں۔ان دوروں سے چونکہ ملک کاکچھ فائدہ تو ہوا نہیں صرف ان کے دل کی تسکین ہوئی ہے۔
اب حکومت کی مشینری لاکھ اسے فسادات کہتی رہے لیکن حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے’گودھرا کانڈ‘ کا سہارا لیا گیا تھا اور اسکرپٹ جس نے بھی تیا ر کی تھی اس کی تخریبی دانشوری پر ایمان لانے کو دل چاہتا ہے جس کو اپنا کر آج مودی اینڈ کمپنی ہندوستان پر راج کر رہے ہیں۔بغور جائزہ لینے پر معلوم پڑتا ہے کہ در اصل یہی ’گجرات ماڈل‘ ہے جس کو پورے ملک میں اپنا کر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا عرصۂ حیات تنگ کرنے کا منصوبہہے۔اتر پردیش میں کامیابی کے ساتھ اسے اپنایا بھی گیا اور اسمبلی کے نتائج کے بعد یوگی کی صورت میں وزیر اعلیٰ بٹھا کر یہ سگنل دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ آنے والے دنوں میں سب کچھ زعفران زار ہوگا۔یوگی بی جے پی اور آرایس کے لئے تُرپ کا اکّا ہیںاور نسلِ دوئم کی نمائندگی کرتے ہیں۔مودی اپنی دانست میں تو یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ۲۰۱۹ء کا عام چناؤ وہ بلا ترد ّدجیت رہے ہیں لیکن ان کے بعد کے پی ایم میٹریل یوگی سے بہتر کوئی نہیں ہو سکتا۔یوگی کی سب سے بڑی لیاقت ان کا یوگی ہونا ہے۔آپ خود سوچیں کہ ایک ملک کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے جب یوگی اپنے ہم منصبوں سے مِل رہے ہوں گے اور ظاہر ہے کہ ان کا لباس گیروا ہی ہوگاتو جو پیغام دنیا کو جائے گا وہ بے شک ہندوانہ ہوگااور یہ کون ہندو پسندنہیںکرے گا؟ یہ اور بات ہے کہ اُس وقت تک اسلامی مملکتیں جمہوریت کی جانب پیش قدمی کر چکی ہوں گی کیونکہ سعودی عربیہ جسے قدامت پسند مانا اور جانا جاتا ہے اُس کے ولی عہد نے اِس بات کا اشارہ دے دیا ہے کہ وہاں بہت کچھ بدلنے والا ہے اور اسے عہدِجدید میں داخل ہونے سے اب کوئی پریشانی نہیں ہے۔
حالات یہی بتا رہے ہیں کہ اِس وقت کا ہندوستان دورِ ماضی میں جی رہا ہے۔اپنی اسمِتا کی تلاش میں سرگرداں ہے۔اسے حال سے کوئی مطلب نہیں ہے ،مستقبل کا سوال تو بعد میں آتا ہے ورنہ ایک فلم کو لے کر اتنا واویلہ نہیں مچایا جاتا۔فلم تو فلم ہے یہ کیونکر حقیقت ہو سکتی ہے۔یہ اور بات ہے کہ تاریخ سے متاثر ہو کر ایک فکشن نگار کچھ مسالے ڈال کر ایک اسکرپٹ تیار کر لیتا ہے لیکن فلم تاریخ تو نہیں ہو جاتی۔فلم مغل اعظم میں انار کلی کا کردار خالصتاً افسانوی ہے،اسی طرح اس فلم پدماوتی میں بھی رانی پدماوتی کا کردار تخیل کی ایک پرواز ہے جو ملک محمد جائسی کی قلم کا نتیجہ ہے لیکن اس ذرا سی بات کو راجپوت کرنی سینا والے نہیں سمجھتے یا سمجھنا نہیں چاہتے۔خیر ان کی تنظیم تو اسی لئے بنائی گئی ہے لیکن مختلف صوبائی حکومتوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ان کے آگے سب نے گھٹنے ٹیک دئیے ؟فلم کی ہیروئن نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ ’ہم بطور ملک بہت پیچھے چلے گئے ہیں شاید اُس دور سے بھی پہلے جہاں ترقی کا کوئی تصور نہیں تھا‘‘۔یہ کہنا تھا کہ کرنی سینا کے علاوہ تمام بی جے پی والے ہیروئن دیپیکا کے پیچھے لٹھ لے کر دوڑ پڑے۔کسی نے اُس کی ناک کاٹ دینے کی بات کہی تو کسی نے اس کے سر کی قیمت ۵؍کروڑ روپے لگائے۔ایک نے تو اس سے بھی آگے بڑھ کر ڈائریکٹر بھنسالی کو بھی ساتھ میں لپیٹتے ہوئے دونوں کے سروں کی قیمت ۱۰؍کروڑ روپے کر دئیے۔مزے کی بات یہ ہے کہ حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں اور دھمکی دینے والوں میں سے کوئی بھی ابھی تک سلاخوں کے پیچھے نہیں گیا ہے۔یہ ہے مودی کا ہندوستان جس میں ایک ہیروئن کو مار ڈالنے کی بات کہی جا رہی ہے۔کوئی سمجھائے کہ اس میں اس کا کیا قصور ہے؟وہ تو محض ایک اداکار ہ ہے،یعنی کہ ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ وہ رانی پدماوتی کیوں بنی؟واہ!بی جے پی والوں کی اس سادگی پہ مر جانے کو دل چاہتا ہے۔
بات در اصل یہ ہے کہ گجرات میں اسمبلی الیکشن کے لئے اس بار بی جے پی کے پاس کوئی موضوع نہیں ہے۔اسے پتہ ہے کہ ’اچھے دن ‘کا موضوع تو اب چلنے والا نہیں ہے، اس لئے وہ خود ہی اس سے اجتناب کر رہے ہیں ۔کسی نے کسی بی جے پی کے لیڈر سے اِن دنوں یہ جملہ نہیں سنا ہوگاکیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اچھے دن مودی راج میں نہیں آنے والے ہیں ۔البتہ برے دن ضرور دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ ’گجرات ماڈل‘ جسے ترقی یعنی وکاس کے مطلب میں سمجھایا جاتا تھا اُس کا جنازہ نکل چکا ہے،وہ یوں کہ گجرات میںلوگوں نے اپنے بچوں کانام وکاس رکھنا بند کر دیا ہے کیونکہ ’مودی کا وکاس‘ گجرات میں مذاق کا موضوع بن گیا ہے۔وہاں کے لوگ اس طرح کے وکاس سے نفرت کرنے لگے ہیں لیکن ووٹ تو بہر حال لینا ہے اور ہر حال میں الیکشن جیتنا ہے کیونکہ یہ بی جے پی کا ’جنم سِدّھ ادھیکار ‘ ہے۔کوئی اور کیسے جیت سکتا ہے؟ اور خاص طور پر راہل گاندھی کو تو اس جیت کا مزہ چکھنے نہیں دینا ہے چاہے کچھ بھیکیوں نہ کرنی پڑے!
اس کی تازہ مثال اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کا وہ بیان ہے جو انہوں نے رہل گاندھی کے بار بار مندر جانے پر دیا ہے اور یہ الزام لگایا ہے کہ’ ’اُس بیچارے کو یہ بھی نہیں معلوم کہ مندر میں کیسے بیٹھا جاتا ہے؟ اور مندر اور مسجد میں کیا فرق ہے؟‘‘لوگوں کو بانٹنے کا اس سے آسان طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟اس کے ایک روز بعد بی جے پی کے ہی قومی ترجمان جی وی ایل نرسمہا راؤکا وہ بیان آتا ہے جو انہوں نے راہل گاندھی کے تعلق سے دیاہے کہ اورنگ زیب اور علاؤالدین خلجی سے ان(راہل) کی مماثلت ہے یعنی کہ مندروں میں جو راہل درشن کے لئے جاتے ہیں وہ صرف اور صرف دکھاوا ہے اور ہندوستانی عوام کو راہل دھوکہ دے رہے ہیں۔جس طرح اورنگ زیب اور خلجی نے منادر توڑے اور عوام کو خوش کرنے کے لئے دو تین مندروں کی تعمیر کروا دی،وہی کام راہل کر رہے ہیں۔انہوں نے اتر پردیش شیعہ وقف بورڈ کے بابری مسجد کے تئیں خیالات کو سراہتے ہوئے راہل گاندھی سے یہ بھی سوال کیا کہ ان کا اس تعلق سے کیا کہنا ہے اور ’حملہ ور بابر ‘کے بارے میں ان کاکیاموقف ہے؟۔اس طرح کے اوچھے بیانات اور حرکات پر بی جے پی اتر آئی ہے کیونکہ اس کے پیروں سے زمین کھسکتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔
اس سے قبل گجراتی میں ایک ڈھیڑھ منٹ کا ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہا تھا جس میں صاف صاف یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح مسلمانوں سے ہندوؤں کو ڈرایا جا رہا ہے اور ووٹ مانگا جا رہا ہے۔اگرچہ ایک مقامی وکیل کی شکایت پر الیکشن کمیشن نے اس کی جانچ کا حکم دے دیا ہے لیکن اس کا مقصد گجرات کے انتخابات کو فرقہ وارانہ رنگ دینا ہی ہے۔پتہ نہیں وہ ویڈیو واپس لیا گیا ہے کہ نہیں لیکن اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی کس قدر بوکھلائی ہوئی ہے۔
آج گجرات میں جو حالات ہیں اور جس کا ذکر صبا نقوی نے اپنے حالیہ گجرات دورے کے بعد ایک مضمون میں کیا ہے ،کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ہندو مسلمانوں سے ڈریں ۔ البتہ اس کے برعکس معاملہ ضرور ہے جس کی طرف صبا نقوی نے اشارہ کیا ہے۔اس کے علاوہ بی جے پی نے پاٹیدار لیڈر ہاردک پٹیل کا مبینہ سیکس سی ڈی لایا اور سوشل میڈیا نیز نیوز چینلوں پر وائرل کروا دیاجس سے ہاردک کی شبیہ ضرور تھوڑی متاثر ہوئی لیکن بی جے پی اپنے منصوبے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور جیسا کہ معلوم ہے ہاردک اور کانگریس کا اب اتحاد ہو گیا ہے اور ممکن ہے کہ کانگریس اس بار گجرات میں بازی مار لے۔بی جے پی کی طرف سے آگے ابھی بہت کچھ آنے والا ہے۔نارد مُنی پروگرام ترتیب دے رہے ہیں اور حملہ ور مورچہ سنبھالے ۲۷؍نومبر سے حملہ کرنے جا رہے ہیں۔دیکھئے !ساری حدیں نہ پار ہوگئیں تو پھر گجرات کے انتخابات کا کیا معنی؟
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ 9833999883