گجرات میں کون جیتا کون ہارا؟ اس سوال کا جواب تو کمسن بچہ بھی دے سکتا ہے‘ مگر سیاسی مبصرین کا یہ احساس ہے کہ ہاں! کانگریس ہار کر بھی جیت گئی اور بی جے پی جیت کر بھی ہار گئی؟ راہول گاندھی نے انتخابی نتائج سے دو دن پہلے کانگریس کے صدر کے عہدہ کا جائزہ لیا اور وہ بڑی حد تک مطمئن ہیں کہ گجرات میں بھلے ہی کانگریسی حکومت نہ بن سکی مگر 27؍برس بعد کانگریس کو اتنی تعداد میں نشستیں حاصل ہوسکی ہیں۔ خود راہول گاندھی نے یہ کہا ہے کہ گجرات ایوان اسمبلی میں برسر اقتدار جماعت کو اب ہر ایک فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا کیوں کہ ایک طویل عرصہ بعد انہیں حقیقی معنوں میں اپوزیشن کا سامنا ہے۔ کانگریس کیوں ہاری؟ بی جے پی کیوں جیت گئی؟ یہ بڑے عامیانہ قسم کے سوالات ہیں۔ اگر دونوں جماعتیں محاسبہ کی غرض سے اس سوال کا جواب تلاش کرتی ہیں تو انہیں بہت سارے حقائق جس کا انہیں پہلے ہی سے علم ہے‘ دوبارہ منکشف ہوںگے۔ مرکز میں بی جے پی کا اقتدار اور گجرات میں مسلسل 22برس سے اس کی حکومت۔ گجرات کے عوام کی اکثریت نے بی جے پی کو اس مرتبہ ناراضگی کے باوجود اس لئے بھی ووٹ دیا ہے کہ یہ انتخابات گجرات کے اپنے وقار کا مسئلہ بھی تھے کیوں کہ ملک کی قیادت جس کے ہاتھ میں ہے وہ سرزمین گجرات کا سپوت ہے۔ نریندر مودی نے انتخابی مہم کے آخری مرحلوں میں گجراتی عوام کو ان کی گجراتی ہونے کا احساس دلایا۔ ان کی تقاریر میں گجرات کے ایک اور ’’مرد آہن‘‘ سردار پٹیل کو نہرو، اندرا اور راجیو گاندھی کے مقابلے میں برتر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ نرمدا ڈیم کے روبرو سردار پٹیل کا 182 میٹر (597فیٹ) بلند مجسمہ کی تنصیب اور ملک کے مختلف مقامات کے دورہ کے موقع پر کسی نہ کسی بہانے سردار پٹیل کی بڑائی بیان کرتے ہوئے مسٹر مودی نے گجراتیوں کے جذبات کو بیدار رکھا۔ جیسا کہ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا کے دورہ حیدرآباد کے موقع پر وزیر اعظم بھی حیدرآباد آئے تھے تو بی جے پی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے حیدرآبادی مسلمانوں کی چٹکی لی‘جب انہوں نے کہا کہ حیدرآباد سردار پٹیل کی یاد دلاتا ہے۔ کسی کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ سقوط حیدرآباد میں سردار پٹیل کا اہم رول رہا ہے۔ بہرحال گجراتی عوام کی اکثریت یہ نہیں چاہتی تھی کہ ان کی ریاست سے تعلق رکھنے والے مودی کو قومی سطح پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے۔ اس کے لئے انہوں نے GST نوٹ بندی کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے نام پر بی جے پی کو ووٹ دیا۔ اگر ہاردک پٹیل پاٹیداروں کا آندولن شروع نہ کرتے، الپیش ٹھاکور اور جگنیش میوانی اگر پسماندہ طبقات اور قبائل کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کرتے، عوامی شعور بیدار نہ کرتے، بی جے پی کو زبردست کامیابی ملتی۔ اگر ٹھاکر اور میوانی خود الیکشن میں حصہ لینے کی بجائے انتخابی مہم چلاتے تو کانگریس کو اور نشستیں ملتیں۔ ٹھاکر اور میوانی کی صلاحیتیں ان کی توانائیاں خود اپنی کامیابی کو یقینی بنانے میں صرف ہوگئیں۔ گجرات میں 1962ء سے اب تک 13مرتبہ اسمبلی انتخابات ہوئے۔ 1962 سے 1985 تک کانگریس کا اقتدار رہا۔ 1980ء میں بی جے پی کے وجود میں آنے کے بعد 9 ارکان منتخب ہوئے جو 1985ء میں 11ہوئے اور 1990ء میں جب جنتادل اور بی جے پی نے کانگریس سے اقتدار چھینا تو کانگریس جو 1985ء میں 149 نشستوں پر کامیاب ہوئی تھی‘ 33پر سمٹ گئی۔ جنتادل نے 70 اور بی جے پی نے 67نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ وہ دن تھا اور آج کا دن کانگریس اقتدار سے دور ہوتی گئی اور بی جے پی کی طاقت بڑھتی گئی۔ 1995ء میں 121، 1998 میں 170، 2002 میں 127، 2007ء 117، 2012 میں 116 اور اب 2017ء میں اس کی تعداد 99ہوگئی۔ کانگریس جو 1990 تک 100 سے زائد نسشتوں پر کامیابی حاصل کرتی تھی وہ 2012ء میں 60ے نشانے پر پہنچ سکی اور 2017ء میں 77نشستوں پر کامیابی ملی‘ اس کی تائید سے مزید 3امیدوار کامیاب ہوئے۔ کم از کم15حلقوں سے اسے معمولی ووٹوں کے فرق سے شکست ہوئی ہے۔ گجرات کے الیکشن نریندر مودی کیلئے ذاتی وقار کا مسئلہ رہے اور راہول گاندھی کیلئے ابتدا ہی سے یہ ہاری ہوئی جنگ لڑنے کے مماثل تھے۔ پھر بھی تین ابھرتے نوجوان قائدین کی بدولت برسر اقتدار بی جے پی کے قلعہ کو وہ اگرچہ کہ فتح نہیں کرسکے مگر اس قلعہ کی دیواروں میں کئی جگہ شگاف ڈالنے میں کامیاب ضرور ہوئے۔ دیہی علاقوں میں اسے زیادہ کامیابی ملی اور شہری علاقوں میں بی جے پی کا دبدبہ قائم رہا۔ سب سے زیادہ کامیابی کانگریس کو سوراشٹرا سے ملی جو 11اضلاع پر مشتمل ہے‘ یہاں کانگریس 32اور بی جے سی 27نشستوں پر کامیاب ہوسکی۔ بی جے پی کو گجرات کے 6 بڑے شہروں، سورت، احمدآباد، جام نگر، بھائو نگر، ’’ودودرا‘‘ اور راجکوٹ میں زبردست کامیابی ملی جب ان شہروں کی 40 میں سے 36نشستیں ان کے پاس آگئیں۔
گجرات الیکشن میں یہ ثابت ہوا کہ اب بھی یہاں فرقہ پرستی کا راج ہے۔ کانگریس کو زیادہ نشستیں ملیں‘ مسلمانوں نے پاٹیدار اور پسماندہ طبقات اور قبائل نے ووٹ دیا ہے۔ بظاہر سیکولر کانگریس کے لئے ووٹ حاصل کرنے کے لئے راہول گاندھی کو ہندو مذہب سے اپنا رشتہ ثابت کرنا پڑا۔ کئی مندروں کے درشن کرنے پڑے اپنے ارکان خاندان کو شیو بھگت بتانا پڑا۔ مسلمانوں نے کانگریس کا ساتھ دیا تاہم بی جے پی نے اپنی انتخابی حکمت عملی کے ذریعہ مسلم ووٹ بینک کو بے اثر کرنے کی بھی کوشش کی اور جن حلقوں میں مسلمانوں کی آبادی قابل لحاظ تھی‘ وہاں وہ اپنے رائے دہندوں کو ایک دن کے لئے ہی سہی ہندو بنکر بی جے پی کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دی۔ پہلے ہی سے سوشیل میڈیا کے ذریعہ منظم انداز میں پروپگنڈہ کیا گیا کہ کانگریس احمد پٹیل کو ریاست کا چیف منسٹر بنانا چاہتی ہے۔ میڈیا کے ذریعہ پاکستان کے کسی ویب سائٹ کے اس پیغام کو اُچھالا گیا جس میں احمد پٹیل کے بارے میں یہ لکھا گیا تھا کہ ’’ہمارے بھائی احمد پٹیل وزیر اعلیٰ بن جائیںگے‘‘۔ الیکٹرانک میڈیا نے اسے خوب اُچھالا اور گجرات کے مودی نوازوں نے اس کا بھرپور استحصال کیا۔ منی شنکر ایر کی زبان کی لغزش جس میں انہوں نے مودی کو ’نیچ قسم‘ کا آدمی کہا تھا‘ پرنٹ میڈیا نے اسے خوب اُچھالا اور گجرات سماچار نے الفاظ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ اور شہ سرخی میں منی شنکر کے حوالے سے خبر چھاپی کہ ’مودی نیچی ذات کا آدمی‘ ہے۔ الفاظ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے سے کافی فرق پڑا۔ الیکٹرانک میڈیا نے غیر محسوس طریقہ سے بی جے پی کے حق میں مہم چلائی جیسے پہلے مرحلے کی پولنگ کے بعد تقریباً سبھی چیانلس نے کانگریس کو الیکشن کا فاتح قرار دیا حالانکہ دوسرے مرحلے کی پولنگ باقی تھی اور 182 میں سے مزید 89 نشستوں پر پولنگ ہونی تھی۔ یہ ایک طرح سے رائے دہندوں کو بی جے پی کے حق میں کرنا تھا کہ دوسرے مرحلے کی پولنگ میں بی جے پی کے حق میں زیادہ سے زیادہ ووٹ نہ ڈالے گئے تو واقعی کانگریس آجائے گی۔ رائے دہندے بیدار ہوئے اور میڈیا نے جو چاہا وہ ہوگیا۔
کانگریس کا موقف ہار کے باوجود پہلے سے بہتر ہے مگر الیکشن میں اس کے تمام اہم قائدین ہار گئے۔ سدھار پٹیل، ستیش سنگھ، سوشانت چودھری جیسے قائدین کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جس سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ گجرات میں کانگریس کی قیادت ڈھانچہ کمزور ہے۔ راہول گاندھی نے بہت اچھی مہم چلائی۔ کئی ریالیاں منظم کیں۔ کئی مندروں کے درشن بھی کئے۔ پسماندہ طبقات اور کسانوں سے ملاقات کی۔ جی ایس ٹی کے مسئلہ کو چھیڑا‘ انہیں ناکامی نہیں ہوئی مگر خاطر خواہ کامیابی بھی نہیں ملی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے 27؍نومبر سے 11؍دسمبر کے دوران 30ریالیاں منظم کیں‘ ان کے لب و لہجہ میں بھی فرق محسوس ہوا۔ انہیں منی شنکر ایر جیسے کانگریسی قائدین نے زیادہ فائدہ پہنچایا۔ بی جے پی ’’کانگریس مکت بھارت‘‘ کا نعرہ لگارہی تھی۔ 150نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ تھا۔ نتائج نے بی جے پی کو اقتدار کو عطا کیا مگر اُسے آئینہ بھی دکھا دیا۔ بہرحال گجرات کے الیکشن 2019ء کے الیکشن کا ریفرنڈم قرار دیئے جارہے تھے۔ گجرات کے نتائج سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ GST اور نوٹ بندی سے ہونے والے نقصانات کے باوجود گجرات کے عوام کی اکثریت نے بی جے پی کے حق میں ووٹ دیا۔ ایک وجہ یہ بھی رہی ہوگی کہ الیکشن سے کچھ دن پہلے بعض اشیاء پر GST کی حد میں کمی کی گئی تھی‘ اس کا بھی اثر ہوا ہے۔ دوسرے یہ کہ عوام نوٹ بندی کے ایک سال بعد اس کے اثرات کو بھولنے لگے ہیں اور GST کے یا تو عادی ہوچکے ہیں یا پھر ذہنی طور پر اُسے قبول کرچکے ہیں۔ 2019ء تک حالات میں اور بھی فرق آئے گا۔ کانگریس کی قدرے بہتر پرفارمنس کے باوجود اس بات کا قوی امکان ہے کہ 2019ء میں بی جے پی کو ایک طاقتور اپوزیشن کا سامنا رہے گا۔ راہول گاندھی اور اکھلیش یادو یا اتحاد یوپی میں ناکام ہوچکا ہے۔ آنے والے دنوں میں کرناٹک کے بشمول کچھ اور ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس کے لئے کانگریس ا ور غیر بی جے پی جماعتیں کس حد تک تیاری کرسکیںگی یہ کہنا مشکل ہے۔ البتہ یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ گجرات میں مسلسل چھٹی مرتبہ کامیابی اور کانگریس سے ہماچل پردیش کو چھین لینے کے بعد بی جے پی کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ ان کے پاس ہندوتوا، رام مندر، جیسے کئی سلگتے مسائل ہیں‘ جن میں الجھاکر اکثریتی طبقے کی تائید اور ووٹ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ انہیں سماج کے دیگر طبقات تائید یا ووٹ کی بھی اہمیت نہیں ہے۔ گجرات اسمبلی الیکشن اس کا زندہ ثبوت ہے جہاں بی جے پی نے ایک مسلم امیدوار میدان میں نہیں اتارا۔ حالانکہ بعض نمائشی قسم کے داڑھی اور ٹوپی، جبے اور دستار والے مسلمان نما عناصر بی جے پی کی ریالیوں میں اور بی جے پی کی کامیابی پر وزیر اعظم کے پورٹریٹس پر پھول نچھاور کرتے ہوئے بھی دکھائے گئے۔ کانگریس نے 6 مسلم امیدوار اُتارے‘ جن میں سے 4 (عمران یوسف، پیرزادہ جاوید، غیاث الدین شیخ اور نوشاد جی)نے کامیابی حاصل کی۔ بعض مبصرین اور تجزیہ نگاروں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ بی جے پی امیدواروں کو مسلم ووٹ بھی ملے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس میں کسی حد تک صداقت بھی ہو کیوں کہ بعض حلقوں میں مسلمانوں ہو یا عیسائی یا کوئی اور‘ نام نہاد سیکولر جماعتوں کے غیر سیکولر امیدواروں کے مقابلے میں بی جے پی امیدواروں کو ترجیح دینے کیلئے مجبور ہوجاتے ہیںکیوں کہ انہیں ان حلقوں میں رہنا بھی ہے‘ کاروبار بھی کرنا ہے۔
بہرحال گجرات کے الیکشن میں بی جے پی اقتدار حاصل کرنے کے باوجود 2012ء کے مقابلے میں 17نشستوں سے محرومی پر اندرونی طور پر افسردہ ضرور ہوگی اور کانگریس ایک بار پھر اقتدار نہ ملنے کے باوجود گذشتہ نشستوں کے مقابلے میں17 زائد نشستوں پر کامیابی پر مطمئن اور مسرور ہوگی۔ EVM میں چھیڑ چھاڑ کے الزامات اپنی جگہ مگر یہ سوال ضرور ذہن میں اٹھتا ہے کہ سب کچھ جان بوجھ کر بھی EVM کے استعمال کیخلاف اپوزیشن کے احتجاج میں دم کیوں نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں۔
رابطہ :ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد
فون9395381226