دنیا میں راستوں کا کال نہیں ۔پائے گدا لنگ ہو تب بھی ہاتھ سے کچھ نہیں گیا ۔لنگڑے فقیر کو بھیک کچھ زیادہ ہی ملے گی ،جس کی بدولت وہ موٹر ،ٹرین بلکہ ہوائی جہاز سے بھی سفر کر سکتا ہے ۔راستے گائوں کے ہوں کہ شہروں کے ان سے راہِ فرار ممکن نہیں ۔یہ پل صراط تک ہماری جان کو لگے ہو ئے ہیں ۔آ دمی قیامت کا انتظار کب تک کرے ، اس نے اسی دنیا میں جنت دوزخ بنانے کی اپنی سی کو شش کر ڈالی اسی طرح پل صراط یعنی شہر کے راستے بنا لئے ۔
شہر میں شاہراہوں سے سلامت گزرنا بھی ایک مسئلہ ہے ۔حکومت اس کے لئے راستے بچھاتی ہے ، قوانین بناتی ہے ؛انھیں چلاتی ہے۔ اکثر دیہاتوں میں ریل نہیں جاتی، اسی لئے یہ قوانین شہر ہی میں رہ جاتے ہیں ۔گائوںکے راستے راستہ کم اور باغیچہ زیادہ ہوا کر تے ہیں ۔ حسنِ بے پر وا کو اپنی بے نقابی کے لئے یہی جگہ پسند آ ئی ۔ اسی لئے ان راستوں پر پایا جانے والا جاندار فطرت سے دوچار ہاتھ زیادہ بے پروا ہوتا ہے ۔شہرو ں میں مختلف لہریں چلتی ہیں اورگائوں کے راستوں پر لوگ لہرا کر چلتے ہیں ۔دیہی راستوں کی وضعداری اور رفتار کا پاس دو پایوں سے زیادہ چوپایوں کو ہوا کر تا ہے ۔آ پ اپنی بائیک پر سوار ان کے پاس سے گزرنا چاہیں تو ایک بھینس ان کی نمائندہ بن کر شانِ بے نیازی کے ساتھ راستہ گیر پیمانے پر پھیل کر کھڑی ہو جائے گی اور آ پ اس بھینس کے آ گے ہارن بجاتے رہ جائیں گے ۔
بارہا یہ ہوا کہ آ پ جلدی میں کسی راستے سے گزرنا چاہتے تھے اور ایک بیل گاڑی کسی نہ کسی موڑ پر خرامِ ناز سے آ پ کے سامنے آ کھڑی ہو ئی ۔گاڑی کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یقینا ہڑپا یا موہن جداڑو کی کھدائی میںبر آ مد ہو ئی ہے ،گاڑی بان کو دیکھا تو نظر پتھروں کے زمانے سے ہوتی ہو ئی گھوم پھر کرڈارون کی تھیوری پر جاکر ٹک گئی ۔کبھی آ پ نے گاڑی کی شوخیِ رفتار کو دیکھ کر موصوف سے پوچھ لیا کہ ’یہ گاڑی چل رہی ہے کہ رکی
ہو ئی ہے ؟ تو وہ زور دار آ واز میں ’ ہئیّو‘ کہہ کر اور بیل کو آ پ کا قائم مقام سمجھ کر، اس کی پیٹھ پر ایک چابک رسید کر تا ہے جو سیدھا تو اسی کی پیٹھ پر پڑ تا ہے مگر الٹا آ پ کو اپنی پیٹھ پر پڑتا ہو ا محسوس ہوتا ہے ۔ ہمیں اس گاڑی کی رہنمائی میں چلتے ہو ئے اکثر یہ محسوس ہوا کہ نہ صرف ہم بلکہ ساری دنیا بیلوں کے پیچھے چلنے پر مجبور ہے ،آ پ گاڑی کو پھلانگ کر آ گے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو گاڑی بان جو اس عجوبہ ِ روزگار میں جتے ہو ئے جانداروں میں بزرگ ترین شخصیت ہو نے کے سبب بلند مقام پر براجمان ہوتا ہے ، پوری قوت سے بیل کی دم مروڑ کر، ہر بار آ پ کی اس امید پر پانی پھیر دیتا ہے کہ دنیا کو کبھی نہ کبھی تو بیلوں کے اتباع سے نجات ملے گی ۔
گاوں کے راستوں پر سواریوں کا حشر بر پا نہیں ہوتا اور ہو بھی تو رقص کر تے ہو ئے راہ گیروں کی موجودگی میں اسپیڈ بریکر کی ضرورت محسوس نہیں ہو تی تاہم گائوں کے وفا شعار کتے جنھیں اول تو آ پ کا آ نا ہی ایک آ نکھ نہیں بھاتا ،داخلے کے وقت بھونک بھونک کر ناکہ بندی کی امکان بھر کوشش کر لیتے ہیں ۔اس کے باوجود آ پ بے شرمی اوڑھ کر بستی میں داخل ہو گئے تو ان کے برادرانِ حقیقی چپّہ چپّہ پر راستوں کے درمیان اپنی ٹیڑھی دموں کو حتیٰ الوسع اسپیڈ بریکر کی شکل میں پھیلاکر دنیا و ما فیھا سے بے خبر سوتے رہتے ہیں ۔
اب ان بستیوں میں یہ منظر عام ہے کہ راستے کے عین درمیان ایک کتا کسی زوال آ مادہ قو م کی طرح بے خبر سو رہا ہے ،البتہ اس کی اس گرں خوابی کی تہہ میں چند دفاعی پر زے سر حد پر تعینات فوجوں کی طرح الرٹ رہتے ہیں ۔آپ نے اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھے بیٹھے جی کڑا کر کے ایکسیلیٹر دبایا اور اپنے اند ر چنگیز خانی جذبات پیدا کر نے کی کو شش کر تے ہو ئے اس سد راہ دم کو ادھیڑ کر رکھ دینے کا ارادہ کیا تب بھی اس اولوالعزم کتے کی منحنی سی دم آ خر دم تک میدان ِ کار زار میں جوان مر دی کے ساتھ ڈٹی رہے گی ۔چنانچہ حملہ اس کی دم پر ہو گا اور بجائے اس کے کہ وہ نیند سے چونک کر صورتِ حال کا جائزہ لے ،اچانک اٹھ کر بے دھڑک آ پ پر حملہ کر دے گا یا شریف زادہ ہوا تو احتجاج کا جمہوری طریقہ اپنائے گا۔
گائوںکی ترقی راستوں سے شروع ہوتی ہے اوراکثر حادثات کی شکل میں رونما ہوتی ہے ۔ ان کی روک تھام کا انتظام بھی کیا جا تا ہے ۔ اس مقصد کے لئے بلدیہ جا بجا اسپیڈ بریکر بناتی ہے اور ایامِ رفتہ خندقیں ، ٹیلے اور پہاڑ اگاتے ہیں ۔ اس کے باوجود حادثات کو کون روک سکتا ہے ۔ان حادثات میں اکثر پیادے تو بال بال بچ جاتے ہیںمات ان سواری نشین شا ہوں کی ہو تی ہے جوخواہ کتنے ہی بے قصور کیوں نہ ہو ں ۔شہ سواری کے جرم میں پکڑ کر پیٹے جاتے ہیں ۔اکثر لوگ انھیں اس قابل نہیں رہنے دیتے کہ پیدل یا سواری پر بیٹھ کر گھر جا سکیں ان کے لئے امبولنس منگوانی پڑتی ہے ۔
اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ بعض پا پیادہ جو عقل سے بھی پیدل ہوتے ہیں سواریوں کو نیچا دکھانے کی کو شش کر تے ہیں ۔خودکو راستہ کا پورا حق دار اور سواریوں کو طفیلی خیال کر کے ان کا مقابلہ کر تے ہیں ۔(یہی کام اسی نیک جذبہ کے تحت، بائیک ،کار یا سائیکل نشین بھی پورے خلوص سے انجام دیتے ہیں ) لوگ شانِ بے نیازی سے راستہ کے درمیان چلتے ہیں ۔ہٹو بچو ، ’شیچ شیچ ‘ اور پیں پاں جیسی ہارن کی حقیرآ وازیں ان کی توجہ منعطف کروانے میں ناکام رہتی ہیں ۔سواریاں آ خر سواریاں ہیں ۔اب میدان میں صرف شہ سوار ہی نہیں گرتے، پیدل بھی منہ کی کھاتے ہیں پھر صفحہ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹ نہ گئے تو خفّت مٹانے کے لئے موٹر سواروں کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔اس قسم کے حادثات میں راہ چلتے لوگوںکی بن آ تی ہے ۔اپنے وجود کی گہرائیوں تک باغ باغ ہو جاتے ہیں اور موقع مل جائے تو بہتی گنگا میں ہاتھ بھی دھو لیتے ہیں ۔وہ تماش بین جن کا تعلق سواروں کے طبقہ سے ہے اس منظر کو دیکھ کر چرغ پا ہو جاتے ہیں اور کسی دن اسی انتقام کی دھن میں راستہ چلتے کسی آ دمی کو کچل دیتے ہیں ۔ اپنے کئے کی سزا بھی پاتے ہیںاور خوش بھی ہو تے ہیں یہ سوچ کر کہ مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا۔
گائوں کے راستے عام طور پر سیدھے سادے اور لا ابالی ہواکرتے ہیں ۔یہ خود رو اور اپنائیت و محبت سے لبریز ہو تے ہیں ۔ پتہ نہیں یہ صفات گائوں والوں نے ان راستوں پر چل کر اخذ کی ہیں یا ان کے تلووں سے نتھر کر راستوں میں در آ ئی ہیں ۔آپ ان پر قدم رکھئے تو گرد و غبار کی بے کل بانہیں آ پ کو لپٹالیں گی ۔بارش میں یہی راستے کیچڑ اچھال اچھال کر اپنائیت کا مظاہرہ کریں گے ۔ ہمارے پیروںکو گیلی مٹی کے آ بنوسی ہونٹوں سے چوم کر قدموں کے نشانات حسین یادوں کی طرح اپنے سینے میں اتارلیں گے ۔اس کے بر عکس تارکول کی سڑکوں پر میلوں چل کر اتر جائیے یوں محسوس ہوگا گویا بھیڑ بھرے راستے میں کو ئی مصافحہ کر کے بھول گیا۔
تارکول کی سڑکیں اب شہروں سے نکل کر گائوں کا رخ کرنے لگی ہیں ۔گائوں کے کچے راستوںکا مستقبل خطرہ میں ہے ۔گائوں کے کتے شاید اسی احساس کے تحت ہر نوارد کو دیکھ کر بھونکتے ہیں ۔گائوں کے راستے ان خود رو پودوں کی طر ح ہیں جنھیں وہاں ’ بے شرم پودے ‘ کہا جاتا ہے ۔ آ پ چلنے کو تیار ہوں تو یہ راستے کہیں سے بھی آ داب عرض ہے کہہ کر نکل آ تے ہیں ۔دوچار قدم چل کر پیچھے مڑ کر دیکھئے انھیں کسی ضدی فقیر کی طرح اپنے پیچھے پا ئیے گا۔
۳۰۔گلستان کالونی ،نزد پانڈے امرائی لانس ،ناگپور ۴۴۰۰۱۳
رابطہ 9579591149