فی الوقت کشمیریوں کا سیاسی لہجہ پتھراور مزاحمتی لہجہ مسلح تشدد ہے۔70سال سے یہی سب ہورہا ہے۔طویل عسکری تحریک اور پاکستان کی نیوکلیائی صلاحتیوں کے باوجود بھارت کو کشمیر میں کبھی کنٹرول کا بحران درپیش نہیں تھا۔ کبھی ایسا محسوس نہیں کیا گیا کہ بس اب کی بار پاکستان کشمیر لے ہی جائے گا، یا اب کی بار سیکریٹریٹ پر آزاد کشمیر کا پرچم لہرائے گا۔ بھارت کو اگر کوئی بحران درپیش رہاہے تو وہ عوامی قبولیت کا ہے۔ پتھر، گولی یا نعرے بازی دلی کا پرابلم نہیں ہے۔ اس کا پرابلم کشمیری مسلمان کی بقاء اور سیاسی ریلونس ہے،اور ان سبھی میں نہایت چالاکی سے کشمیریوں کا مزاحمتی رویہ ہی مانع رکھا گیا ہے۔
بھارتی اقتدار اپنی قبولیت کی سبیل بالواسطہ یا پراکسی کے ذریعہ کرتا رہا ہے۔ شیخ عبداللہ سے بخشی اور بخشی سے مفتی سعید تک سبھی سیاسی قوتوں نے بھارت کے اسی بحران کی سبیل کے طور کام کیا، حاشیہ پر چند ایک تعمیری کام ہوئے لیکن کشمیر کی سیاست کااصل ایجنڈا بھارت کی سیاسی قبولیت کو واقعیت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا۔سیاسی بچولیوں کا شجرء نصب جو بھی ہو، لیکن آج کے قاری کو وحشت ہوتی ہے کہ یہ کارنامہ بھارت نے کیسے انجام دیا؟
فی الوقت غالب عوامی اکثریت بھارتی اقتدار کو بھلے ہی مستردکرتی ہو، لیکن حالات ایسے بن چکے ہیں کہ ہر کشمیر ی کی سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی کا ایک ایک قدم بھارتی اقتدار کے استحکام کی جانب گامزن ہے۔ لیکن لہجے اس قدر ڈھیٹ اور نظریے اس قدرجامدہیں کہ شعور کی آنکھ اس حقیقت کو دیکھنے سے قاصر ہے۔ آدھار کارڈ، نوکریوں، فورسز میں کشمیریوں کی بھرتی ، قرضہ جات، ریلوے نیٹ ورک،تعلیمی نصاب اور نوجوانوں کی بھارتی شہروں میں گرومنگ سے متعلق احوال بیان کرنا اس محدود کالم میں ممکن نہیں۔ لیکن واقع یہ ہے کہ کشمیر کی نئی نسل بھلے ہی تحت الشعور یا لاشعور میں بھارت مخالف ہو، لیکن اس کی مادی، سماجی اور سیاسی زندگی ایک بھارتی شہری کے طور بسر ہوررہی ہے اوراب اس انحصار کے بل پر کشمیر کے مسلم کردار کا محاصرہ کیا جارہا ہے۔یہ تلخ حقائق کوئی سننا نہیں چاہتا ، کیونکہ گزشتہ تین دہائیوں سے ہماری قوم ایک طرح کی ’’سیاسی مذہبیت‘‘ کی شکار ہے جسکے تحت سیاسی مواقف نے شریعت کی حیشت اختیار کرلی ہے اور ایسے میں ہر ناقد غدار اور ہر معترض منحرف قرار پاتا ہے۔ایسے ماحول میں ایک ایسا ضِدِانقلاب پولیٹکل کلاس پروان چڑھا ہے جو اپنے مادی مفادات کی خاطر اپنے قومی مفادات کی بیخ کنی کررہا ہے۔برادرکشی کی یہ تجارت بتدریج ہمارا قومی مزاج بنتا جارہا ہے، جو کبھی بھی خانہ جنگی کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ خانہ جنگی کی ذمہ داری کل کا مورخ کس کس کے کاندھوں پر ڈالے گا۔حدیث کے مطابق اختلاف اُمت کے لئے رحمت ہے تو ہوا کرے، لیکن ہمارے یہاں اختلاف تذلیل ، دشنام طرازی یہاں تک کہ موت کا سبب ہے۔
موہن داس کرم چند گاندھی اور رابندرناتھ ٹیگور بھارت کی تحریک آزادی کے دو اہم ستون ہیں۔ 1915میں جب گاندھی جنوبی افریقہ سے واپس بھارت لوٹے تو ٹیگور نے ہی انہیں اور ان کے ساتھیوں کو شانتی نکیتن میں پناہ دی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ گاندھی ٹیگور کے یہاں ایک ماہ تک رہے۔دونوں کے درمیان اس قدر انس تھا کہ گاندھی کو مہاتما کا لقب ٹیگور نے، اور ٹیگور کو گُروجی کا لقب گاندھی نے ہی دیا ہے۔افسپا طرز کا رووالٹ ایکٹ آیا تو اس کی مزاحمت میں ٹیگور گاندھی کے شانہ بشانہ تھے، جلیاں والا باغ کا قتل عام ہوا تو ٹیگور نے گاندھی کی مزاحمت میں حصہ لیا۔یہ وہ دور تھا جب بھارت کی تحریک آزادی بھگت سنگھ کی مسلح مزاحمت اور گاندھی کے عدم تشدد کے دو متوازی بیانیوں پر مبنی تھی۔
لیکن جب گاندھی نے انگریز اقتدار کے خلاف مزاحمت میں برہمن مذہبیت کا عنصر داخل کردیا اور سول نافرمانی کی تحریک شروع کی تو دونوں میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ گاندھی کا موقف تھا کہ برطانوعی مصنوعات کو نذرآتش کرکے چرخے پر سوت کاتا جائے، سرکاری سکولوں کا بائیکاٹ کیا جائے، سرکاری عمارت کا جلاو گھیراؤ ہو، ملازم ڈیوٹی ترک کریں، بجلی ، پانی یا دیگر سہولات پر ٹیکس نہ دیا جائے وغیرہ۔چونکہ گاندھی بھارتی عوام کیلئے نجات دہندہ کے طور اُبھرے تھے، اس تحریک کو چند سال تک دوم ملا۔ لیکن ٹیگور نے اس تحریک کی جم کر مخالفت کی۔ انہوں نے گاندھی سے ایک ملاقات کے دوران کہا کہ محدود وطن پرستی کے نام پر قوم کے اجتماعی شعور میں نفرت کی آلودگی پیدا ہورہی ہے، اور اس کا خمیازہ آج نہیں تو آزادی کے بعد پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔ دونوں کے درمیان طویل عرصہ تک خط و کتابت ہوتی رہی۔ ٹیگور انگریزی ادب کے سرخیل اور نوبل انعام یافتہ تھے۔ لیکن گاندھی نے اُن کے اعتراضات کا جواب دلائل سے دیا، اور ایک بھی خط میں ٹیگور کو انگریزوں کا ایجنٹ قرار نہیں دیا۔ حالانکہ اُن دنوں جاپان انگریزیوں کے خلاف بھارت کی مزاحمت کی ہر سطح پر حمایت کررہا تھا۔ ٹیگور نے بھی گاندھی کو جاپان کے جادو میں گرفتار نہیں کہا۔ پھر بعد میں نہ بھگت سنگھ نے بھارت کو آزاد کیا نہ گاندھی کے عدم تشدد یا سول نافرمانی نے۔ جنگ عظیم دوم نے تاج برطانیہ کے چھکے چھڑا دئے اور انگریز بھارت چھوڑ کرچلے گئے۔ لیکن تقسیم کے دوران وہی پرتشدد اجتماعی شعور مذہبی جنونیت کے طور اُبھرا جسے گاندھی نے سول فرمانی کے دوران قوم کی شناخت بنایا تھا۔ ٹیگور کا ماننا تھا کہ پوری دنیا کو خدا کی آباد ی سمجھ کر قوم میں مثبت طبعیت سازی کی جائے تو غلامی کا طوق مادی ہی نہیں شعوری طور پر بھی قوم کے اجتماعی ضمیر سے نکل جائے گا۔
آج کا بھارت دیکھ لیجئے، مذہبی جنونیت بھی وہی، اور مغرب کی غلامی کی سطح بھی وہی۔ ہمارے یہاں بھگت سنگھ بھی ہیں اور گاندھی بھی ہیں، بس ایک ٹیگور نہیں ہیں۔قوم کے اجتماعی شعور کی نشور اُسی نظریاتی غذا کی بنیاد پر ہوتی ہے جو اسے سالہاسال تک کھلائی جائے۔ میڈیکل سائنس کے بانی ہیپو کرائٹس کا کہنا ہے کہ ’’آپ وہی ہیں جو آپ کھاتے ہیں‘‘۔ کیا وقت آگیا ہے کہ ہم نظریاتی تغذیہ کا ازسر نو جائزہ لیں؟۔
بشکریہ ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘