ہندوستان کو آزاد ہوئے تقریباً اتنا ہی وقت ہوا جتنا موہن داس کرم چند گاندھی کو قتل ہوئے ہوا ہے لیکن دانش کی دنیا آج اس بات پر حیران ہے کہ جس نظرئیے نے گاندھی کو موت کے گھاٹ اتاردیا، اسی کے علمبردار آج گاندھی جینتی پر اس کی عظمتوں اور نظریات کی تشہیر میں جوش و خروش کالامثال مظاہرہ کررہے ہیں۔وہ آج فخر کے ساتھ گاندھی کو مہاتما بھی کہہ رہے اور باپو بھی جبکہ تقریباً چھ دہائیوںسے زیادہ عرصے تک وہ گاندھی جینتی پر اس کی سمادھی پر بھی نہیں گئے ہیں ۔ اٹل بہاری واجپائی نے گاندھی کی سمادھی پر پہلی بار حاضری دی تھی اور اب نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی گاندھی کو اس کے نظریات کے ساتھ گلے لگا رہی ہے ۔ گاندھی کی اپنی جماعت کانگریس، جو اس کے نظریات کی علامت ہے، سکتے میں ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے ۔ یہ کوئی تبدیلی ہے ، کوئی انقلاب ہے یا محض ڈراما ۔اس کی اعلیٰ قیادت اور اس کے دانشوروں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ،جس نے آر ایس ایس کی کوکھ سے جنم لیا ہے، کیسے مہاتما گاندھی کو خراج عقیدت بھی ادا کر سکتی ہے حالانکہ اسی جماعت کے نظرئیے نے گوڑسے پیدا کیا تھا جس نے گاندھی کو گولی مار کر قتل کردیا ۔ گوڑسے کو ہی نہیں بلکہ آر ایس ایس کوبھی اس بات پرہمیشہ فخر رہا ہے کہ یہ ’’ عظیم ‘‘ کام عمل میں لانے میں اسے کامیابی حاصل ہوئی جو اس کی نظر میںہندوتواکے تحفظ کیلئے انتہائی ضروری تھا ۔
نریندر مودی آر ایس ایس کے سنچالک رہے ہیں ۔ان کے علاوہ کسے اس بات کی مکمل جانکاری ہوگی کہ آر ایس ایس کا وجود گاندھی کے فلسفے کو ہندوستانیوں کے ذہنوں اور دلوں سے اکھاڑنے کیلئے عمل میں لایا گیا ۔یہ جماعت گاندھی کے اس فلسفے کا ردعمل تھی کہ ہندوستان اس کے تمام باشندوں کا ملک ہے صرف ہندوئوں کا نہیں ۔آ ر ایس ایس کے نظرئیے کی بنیاد یہ ہے کہ ہندوستان ہندوئوں کا ملک ہے ۔ مسلمانوں کو اس ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ وہ ملک کو تقسیم کرکے اپنا الگ ملک بناچکے ہیں اوردیگر مذاہب کے ماننے والے دوسرے درجے کے شہری ہیں ۔پھر کیسے یہ ممکن ہے کہ وہ خود اس بنیاد کو ڈھا دیں، اس کے بعدان کے پاس بچے گا کیا ۔کچھ لوگ اس بات کے قائل ہونے لگے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے نظریات میں بدلائو آیا ہے۔ ایسے لوگ اس حقیقت کو فراموش کررہے ہیں کہ نریندر مودی کی قیادت میں برسراقتدار آنے سے پہلے اس کے انتخابی منشور میں سرفہرست ایسے مدعے تھے جو ہندوتوا کے نظریات کے بنیادی مدعے ہیں اور گاندھی کے فلسفے کی نفی کرتے ہیں ۔ برسر اقتدار آنے کے بعد جس طرح سے بھارتیہ جنتا پارٹی تعلیمی نصاب کو تبدیل کرکے اسے اپنے نظریاتی خطوط پر استوار کررہی ہے ۔ مغلوں کو لٹیرے قرار دیکر تاریخ میں ان کے کردار کو مسخ کررہی ہے ۔ ٹیپو سلطان کو ہندو مخالف حکمر اں کے طور پر پیش کررہی ہے ،وہ اس بات کا ثبوت فراہم کرنے کیلئے کافی ہے کہ اس کے نظریات اپنی جگہ اٹل ہیں ۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایجنڈے میںاس وقت بھی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اورریاست جموں و کشمیر کے خصوصی درجے کا خاتمہ سرفہرست ہے ۔ یہ گاندھی کی سیاسی سوچ ، اس کے نظریات اور اس کے فلسفہ حیات کی ضد ہے ۔گاندھی بیسویں صدی میں اہنسا کے فلسفے کا موجد بھی تھا ، علمبردار بھی اور علامت بھی۔بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی ذیلی شاخیں اہنسا پر کوئی یقین نہیں رکھتی ہیں ۔وہ سخت گیری اور انتہا پسندی کی سیاست کو ملک کے استحکام اور بقاء کی ضمانت سمجھتے ہیں چنانچہ ذہنوں میں یہ سوال اٹھنا فطری امر ہے کہ پھر بھارتیہ جنتا پارٹی کا گاندھی سے کیا مطلب ہے ۔ مودی جی گاندھی جینتی پر پوجا پاٹھ میں بھی حصہ لے رہے ہیں اور گاندھی کی عظمتوں کے گیت بھی گارہے ہیں ۔اس موقعے پر ان کے نام سے ایک مضمون بھی جاری ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ’’ آج ہم اپنے پیارے باپو کے 150ویں یوم پیدائش کی تقریبات کا مبارک آغاز کررہے ہیں۔ باپو آج بھی دنیا میں اْن لاکھوں ، کروڑو افراد کے لیے امید کی ایک کرن ہیں، جو مساوات، احترام، شمولیت اور اختیار کاری سے بھر پور زندگی جینا چاہتے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہوں گے ، جنھوں نے انسانی معاشرے پر ان کے جیسا گہرا اثر مرتب کیا ہو۔ مہاتما گاندھی نے بھارت کو صحیح معنوں میں اصول اور عمل سے مربوط کیا تھا۔ سردار پٹیل نے ٹھیک ہی کہا تھا، ‘‘ بھارت تکثیریت سے آراستہ ملک ہے، اتنی گوناگونی والا کوئی دیگر ملک روئے زمین پر نہیں ہے۔ اگرکوئی ایسا فرد تھا، جس نے نوآبادیات کے خلاف جدوجہد کے لئے سبھی کو متحد کیا، جس نے لوگوں کو اختلافات سے اوپر اٹھایا اور مطلع عالم پر بھارت کے وقار میں اضافہ کیا، تو وہ صرف مہاتما گاندھی ہی تھے۔ اور انھوں نے اس کا آغاز بھارت سے نہیں، بلکہ جنوبی افریقہ سے کیا تھا۔ باپو نے مستقبل کا اندازہ کیا اور حالات کے وسیع پس منظر میں سمجھا۔ وہ اپنے اصولوں کے تئیں اپنی آخری سانس تک عہد بستہ رہے۔‘‘
یہ شاندار خراج عقیدت گاندھی جی کا کوئی ازلی و ابدی عاشق ہی اسے پیش کرسکتا ہے لیکن یہ ہندوستان کا وہ وزیر اعظم کررہا ہے جس نے آر ایس ایس کی شاکھائوں میں کام کرتے ہوئے اپنا بچپن گزارا ہے جہاں گولوالکرکے فلسفے کے دھارمک اور سیاسی عقایدپر مکمل یقین کے بغیر داخلہ بھی ممکن نہیں اور یہ فلسفہ گاندھی کے وجود کو ہندوستان کی سرزمین پر برداشت کرنے کیلئے بھی قطعی تیار نہیں تھا ۔پھر ایک ہی شخص دو متضاد فلسفوں پر اپنی سیاست کی بساط کیسے بچھاسکتا ہے ۔یہ ہوسکتا ہے کہ وزیر اعظم کے منصب پر بیٹھ کر نریندر مودی جی کو بھی اٹل بہاری واجپائی کی طرح یہ احساس ہوا ہوکہ دنیا میں گاندھی جی کا قد و قامت ہندوستان سے زیادہ بلند ہے اور اس ننگ دھڑنگ فقیر کو ہندوستانی نظریات کی علامت کے طور پر سامنے رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو کانگریس کے پاس یہ علامت زبردست سیاسی قوت کے طو ر پر موجود رہے گی جو کسی بھی وقت نریندر مودی اور بھاجپا دونوں کو سیاست کے آسماںسے نیچے گراسکتی ہے ۔چرخہ چلاتے ہوئے گاندھی کی تصویر ہاتھ میں لیکر گاندھی کے فلسفوں اور اصولوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ دینا زیادہ محفوظ اور کار آمد ہوسکتا ہے ۔ اسے رام کا پجاری ثابت کرکے بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کیا جاسکتا ہے ۔ اسے ملک کی ایکتا اوراکھنڈتا کا علمبردار قرار دیکر ریاست جموں و کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کیا جاسکتا ہے اور وہ سب کچھ کیا جاسکتا ہے جس کی تکمیل میں گاندھی سب سے بڑی رکاوٹ رہا ہے اور آج بھی رہ سکتا ہے ۔
انسانی تاریخ کا یہ بہت بڑا المیہ رہا ہے کہ اکثر عظیم انسانوں کو اس کے اپنوں نے ہی ملیامیٹ کرنے کے جتن کئے ۔مہاتما گاندھی کبھی نہیں چاہتے تھے کہ ہندوستان تقسیم ہو ۔ وہ قاید اعظم محمد علی جناح کو متحدہ ہندوستان کا پہلا وزیر اعظم بنانے پر بھی آمادہ تھے لیکن کانگریس کی اعلیٰ قیادت جس میں پنڈت جواہر لعل نہرو اس لئے پیش پیش تھے کہ وہ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم بننے کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے تھے اور انگریز بھی ہندوستان کو تقسیم کئے بغیر واپس نہیں جانا چاہتے تھے ۔گاندھی تن تنہا تقسیم کے سامنے دیوار بن کر نہیں رہ سکتے تھے اور انہیں ہار ماننے پر مجبور ہونا پڑا ۔پاکستان بنا تو انہیں کانگریس کی اس تھیوری سے اتفاق نہیں تھا کہ یہ نوزاید ملک کچھ ہی وقت میں بکھر جائے گا۔وہ تن تنہا فرقہ وارانہ فسادات کے سامنے بھی دیوار بن کھڑا رہا اور پاکستان کی حمایت بھی کرتا رہا۔ یہ فرقہ وارانہ منافرت کی بھڑکتی آگ کے درمیان ہندو اکثریت کے جذبات سے ہم آہنگ رویہ نہیں تھا ۔اس کے خلاف ہندو اکثریت خفا ضرور تھی لیکن گاندھی کا اثر اس قدر گہرا تھا کہ اس کے خلاف بغاوت کا سوال ہی نہیں تھا لیکن کانگریس کے لیڈر اس کا فایدہ ضرور اٹھاتے رہے ۔اسی اثناء میں جموں و کشمیر پر قبائلی حملہ ہوا اور مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان سے مشروط الحاق کے عوض فوجی مدد کی درخواست کی ۔سرینگر ہوائی اڈے پر قبائلیوں کے قبضے سے پہلے ہی ہندوستانی فوج ہوائی اڑے پر اتری اور قبائلی تیزی کے ساتھ پیچھے ہٹادئیے گئے ۔اس سے پہلے گاندھی اس وقت کشمیر پہنچے تھے جب مہاراجہ ہری سنگھ الحاق کے بارے میں بڑے مخمصے میں تھا ۔وہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کے حق میں نہیں تھا ۔پاکستان کے ساتھ سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ ہوچکا تھا اور ڈاک گھروں پر پاکستان کے جھنڈے لہرا رہے تھے۔شیخ محمد عبداللہ جیل میں تھے ۔بخشی غلام محمد ، غلام محمد صادق اور محی الدین قرہ گرفتاری سے بچنے کیلئے روپوش تھے ۔سرینگر پہنچنے پر گاندھی کیخلاف مسلم کانفرنس نے مظاہرے بھی کئے ۔ پاکستان کے حق میں اور گاندھی کے خلاف نعرے بھی لگائے گئے ۔جب گاندھی جی کی ملاقات مہاراجہ ہری سنگھ سے ہوئی تو ان کی اہلیہ نے سونے کے پیالے میں انہیں دودھ پیش کیا لیکن گاندھی جی نے یہ کہہ کر دودھ نہیں پیا کہ ’’ بیٹی جس راجہ کی پرجا اس اس سے ناراض ہو، میں اس کا دودھ نہیں پی سکتا‘‘ ۔ گاندھی جی سے بات چیت کے بعد کچھ ایسی تبدیلیاں ہوئیں جو الحاق کے بارے میں مہاراجہ کے خیالات میں تبدیلی کی عکاسی کررہی تھی ۔رام چند کاک کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹادیا گیا جنہیں بھارت مخالف اورخود مختار کشمیر کا حامی سمجھا جاتا تھا ۔اس لحاظ سے آج بھی یہ سمجھاجاتا ہے کہ گاندھی جی کا الحاق کے سلسلے میں اہم کردار رہا ہے ۔ یہ خیال اس لئے بھی زیادہ معتبر سمجھا جاتا ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست کا ہندواکثریتی ملک کے ساتھ الحاق گاندھی کے نظر یات اور فلسفے کو تقویت پہنچانے کا باعث تھا ۔شیخ محمد عبداللہ بھی گاندھی سے متاثر تھا ۔اور انہیں وزیر اعظم کا عہدہ تفویض کردیا گیا ۔
کسے معلوم تھا کہ گاندھی کا قتل ہونے کے بعد وہی قوتیں نظریاتی ہم آہنگی کے اس ماحول کو ملیامیٹ کرنے کیلئے سرگرم ہوجائیں گی جو گاندھی کوصفحہ ہستی سے مٹاچکی تھیں۔جموں میں ایک ودھان ایک پردھان کی ایجی ٹیشن شروع ہوئی اور ریاست میں داخلے کے لئے پرمٹ سسٹم ختم کرنے کیلئے شیاما پرشاد مکرجی نے آر ایس ایس سنچالکوں کے ساتھ پیدل مارچ کیا ۔انہیں گرفتار کرکے نظر بند کردیا گیا مگر اس دوران ان کی موت واقع ہوئی ۔ہندو سنگھٹن شیاما پرشاد مکرجی کی اس ’’قربانی ‘‘کو ہر سال یاد کرتے ہیں اور اس موقعے پر یہ عہد کیا جاتا ہے کہ دفعہ 370اور 35الف کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کردیا جائے گا ۔یہ دفعات گاندھی کے نظریات اور فلسفے کے ستون ہیں ۔گاندھی جی ایک چھوٹی سی ریاست ،جس کا بھارت کے ساتھ عارضی الحاق ایسے حالات میں ہوا جو اس الحاق کے سراسر منافی تھا ،کے ساتھ بے اصولی اور وعدہ خلافی شاید ہی برداشت کرتے لیکن وقت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اب گاندھی کا نام ساتھ لیکر ہی یہ کام بھی کرنے کی ٹھان لی گئی ہے ۔فوجی قوت کے ذریعے کشمیر میں امن لانے کا عزم گاندھی کے اہنسا کا کونسا پہلو ہے اور عوامی شمولیت کے بغیر بلدیاتی و پنچایتی انتخابات ٹھونس کر سیاسی جارحیت کا ارتکاب نہ صرف گاندھی کو اس کے نظر یات کے ساتھ غلط ثابت کررہا ہے اور اس کے نظرئیے سے متاثر لوگوں کے کردار کو بھی۔ جو لوگ ایسا کررہے ہیں وہی گاندھی جی کے نظریات کی وراثت کے دعویدار بھی بنے ہوئے ہیں ۔
( بشکریہ ہفت روزہ نوائے جہلم سرینگر)