سورج ڈھلنے جارہا تھااور آسمان پر کالے کالے بادل جمع ہورہے تھے جن میں شفق کی سرخ لکیر دھندلی پڑگئی تھی۔ بارش ہونے کے آثار صاف دکھائی دے رہے تھے کہ ابھی بجلی کوندنا شروع کرے گی ،بادل گرجینگے اورآسماں سے بارش کا نزول ہو گا ۔سبھوں کے گاے بیل گھر لوٹ چکے تھے لیکن خدا بخش پریشان تھا کہ دن تو ڈھل گیا ہے مگر گاے ابھی تک لوٹ کے نہیں آئی۔روز سہ پہر ڈھلتے ہی تو گھر آیا کرتی تھی، نہ جانے آج کہاں غائب ہوگئی۔وہ بار بار آسمان کی طرف نظر اٹھا کرموسم کا جائزہ لے رہاتھا ۔دل میں وسوسوں نے گھر کر لیااور پریشانی کے آثار چہرے پر ظاہر ہونے لگے ۔کچھ دیر آنگن میں ادھر ادھرٹہلتا رہا اور پھر بیوی کو پکارنا شروع کیا:ــ
’’ارے سنتی ہو‘‘
’’سعادت کی ماں‘‘
’’کہاں پاتال پہنچ جاتی ہو ‘‘
اندر سے آواز آئی’’آسمان سر پر کیوں اٹھارکھا ہے ‘‘
’’گائے ابھی تک لوٹ کے نہیں آئی ،میں ذرا دیکھ آتاہوں کہ کہاں چلی گئی ہے ‘‘یہ کہہ کر خدا بخش گھر سے نکل گیا ۔گاے کے گھر نہ آنے کی خبر سن کر خدا بخش کی بیوی ہاجرہ کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں ،اس کے پیر رک گئے اور اس کے ہاتھوں کی پھرتی جواب دے گئی۔وہ اپنی جھوپڑی سے باہر نکل آئی اور دروازے پر بیٹھ کر گاے کا راستہ تکنے لگی۔
خدا بخش اور ہاجرہ نے تین برس تک محمد زماں، جو رشتے میں ہاجرہ کا بہنوئی تھا، کی گائے پالی تھی،جس کے عوض محمد زماں نے اس گاے کی ایک بچھیاہاجرہ کو دی تھی ۔دونوں میاں بیوی نے بڑی مشکلوںسے اس بچھیا کو پال پوس کر گائے کے درجے تک لایا تھا ۔خدا بخش اسکے لئے دن میں کئی بار گھاس لانے جاتااورہاجرہ دو بار پانی پلاتی ۔خدا بخش جب بھی مزدوری سے لوٹ کر آتاتو پہلے اپنی گاے کی خبر لیتا ،ہاتھ پیر دھولیتا اور پھر اپنی جھوپڑی کے اندر داخل ہوتا ۔اس گاے کی دیکھ بال دونوں میا ں بیوی اپنے بچوںکی طرح کر رہے تھے۔اسے ہفتے میں ایک بار ضرور نہلاتے۔ اس کے جسم کے سفید حصوں پر مہندی لگاتے اور صبح اور شام کے وقت اس پر ہاتھ پھیرتے اور اسے کھرچتے۔
پچھلے مہینے جب یہ گاے بیمار ہوئی تھی تو گھر میں کسی کے حلق سے ایک نوالہ نہ اترا تھا ۔دو دن میاں بیوی بھوکے ہی رہے اور پانی پر گزارہ کیا ۔خدابخش تو ان دنوں گاو خانے میں ہی سویاتھا اورہاجرہ کی راتوں کی نیند یہ سوچ سوچ کر اچٹ جاتی کہ پتہ نہیں صبح تک ہماری گاے کا کیا حال ہوگا ۔ خدا بخش اور ہاجرہ نے اپنی جھوپڑی کی چٹائی بیچ کر اپنی چہیتی گاے کا علاج کروایا۔ہاجرہ نے تو ان دنوں اتنا روئی جتنا اس نے اپنے والد کے انتقال پر بھی نہ رویا تھا ۔وہ دن بھر گاے کے آس پاس ہی نظر آتی اور اکژ اس کی نظریںآسمانوں کی طرف اٹھتی رہتیں ا ور ہونٹ ہلتے رہتے ،شائد اپنے رب سے اپنی گاے کی عافیت اور شفایابی کیلئے دعائیںکرتی تھی۔
جب خدابخش کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی تو وہ کئی ہفتوں تک چل پھر نہ سکا تھا ،مزدوری پر جانا تو دورکی بات اسے پیشاب و پاخانہ کیلئے بھی دوسروں کا سہارالینا پڑتاتھا۔ایسی حالت میں مالی دشواری کا سامنا لازمی تھا ۔اپنا پیٹ پالنے کیلئے تو گھر میں بچا کھچا راشن موجود تھا لیکن گاے کا کیا بنتا اس کا پیٹ بھر نے کیلئے کچھ نہ کچھ ضرور کرنا تھا ۔ہاجرہ کرتی تو کیا کرتی ؟ساہو کار سے چندمہینوں کیلئے کچھ رقم ادھار لینی پڑی ۔ابھی دس پندرہ ہی دن ہوئے تھے کہ اس نے آکر آنگن میں ہنگامہ کھڑا کردیا ۔اس کی نظر گاے پر تھی جسے وہ ہڑپنا چاہتاتھا۔غریب میاں بیوی آناًفاناًکہاں سے پیسے لاتے ،خدا بخش نے اپنی ٹوپی اور ہاجرہ نے اپنے سر کی اوڑھنی اتار کر ساہو کار سے عاجزی کی تھی، جب جاکے ساہوکار آگن سے نکلا تھا ۔
آج وہ گاے غائب تھی اور ہاجرہ آبدیدہ۔زوروں کی بارش شرورع ہوچکی تھی ۔ہاجرہ اس سے بے خبر گاے کے نہ آنے پر بیتاب ہوچکی تھی اور قریب تھا کہ وہ زور زور سے رونا شروع کردیتی کہ خدا بخش اپنا پائجامہ اوپر اٹھا کر پتلی پتلی پنڈلیوں سے لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے گائے لے کر آگیا۔وہ پوری طرح سے بھیگ چکا تھا اور سردی سے ٹھٹھررہا تھا ۔گاے دیکھ ہاجرہ کی جان میں جان آگئی ۔اس نے اپنے آنسوں پونچھ لئے اورگاے اور خدا بخش کے ساتھ گاو خانہ میںداخل ہوگئی ۔وہ پیار سے گا ے کے سر پر ہاتھ پھیرنے اور سرگوشی کرنے لگی۔۔۔
’’تجھے میری عمر لگ جائے کہاں گئی تھی‘‘
’’میں تو گھبرا گئی تھی کہ خدا نہ کرے۔۔۔۔۔‘‘
’’کل سے تو اکیلے نہیں جائے گی ،گھر میں رہے گی یا سعادت کے ابا کے ساتھ جائے گی‘‘
خدابخش نے گاے کو باندھ کرناند میں چارا ڈال دیا اور وہیں بیٹھ گیا ،ہاجرہ بھی آکر بیٹھ گئی ۔دونوں میاں بیوی باتوں میں مگن ہو گئے اور گاے جگالی کرنے میں مست۔
اگلے دن خدا بخش نے جونہی گاے کی رسی کھولنی چاہی تو ہاجرہ نے آواز دی ؛ ’’ میں آج اسے چرنے کیلئے نہیں جانے دونگی۔ خدا نہ کرے اگرکل اسے کچھ ہوجاتا تو۔۔۔‘‘
’’میں رات بھر ڈر گئی ،میں نے اپنی گاے کوخون میں لت پت دیکھا،اس کے منہ اور سینگوں سے میں نے خون ابلتے دیکھا۔خدا نہ خواستہ اسے کچھ ہونہ جائے‘‘
خدا بخش نے کہا ’’ خدا پر بھروسا رکھو یہ تمہارا وہم ہے ‘‘
’’نہیں جی میں اسے اکیلے جانے نہیں دونگی ۔۔۔۔۔تم ہی اسے ایک دو گھنٹے چرانے لے جاو اور اپنے ساتھ ہی واپس لے آ‘‘
خدا بخش نے کھونٹے سے بندھی گائے کی رسی کھولی، اس کا جسم دوچارمنٹ تک کھرچااوراسے لے کر جنگل کی طرف چلا گیا لیکن شام قریب ہونے پر بھی واپس لوٹ کے نہیں آیا ۔ہاجرہ گھبرا گئی اور اپنے رشتے کے دیو رمنصور کو بھلاوا بھیج کر جنگل کی طرف بھیج دیا۔منصور جنگل میں تھوڑا ہی دور نکلا تھا کہ اسے چند آدمی ایک جگہ جمع نظر آئے۔اپنے بھائی کو دیکھنے ان کی طرف چلاگیا۔قریب پہنچا تو اُس کے پیروں تلے زمیں کھسک گئی اور آسمان ٹوٹ پڑا ۔اس نے خدا بخش کے جسم کو خون میں لت پت دیکھا جو ٹھنڈا ہوچکا تھا ۔اس کے سر پر گہرا زخم تھاجہاںسے خون بہہ رہاتھا،منہ سے بھی خون باہر آرہاتھا۔اس کے ہاتھ ٹوٹے ہوئے تھے اورپتلی پتلی پنڈلیوں پر نیلے پڑ گئے تھے۔ گائے وہیں بیٹھی تھی، جس کی آنکھوں سے آنسوں بہہ رہے تھے ۔
اگلے دن ہر سو اسی بات کاچرچاتھا اورمیڈیا میں ایک ہی خبر گردش کر رہی تھی کہ:
’’ گاو رکھشکوں نے ایک جگہ سے دوسری جگہ گاو سمگلنگ کرنے پر ایک شخص کوما رمار کربے دردی سے قتل کر دیا ‘‘۔
���
بومئی زینہ گیر،سوپور
موبائل نمبر؛9858493074