سرینگر//گائو کدل میں28برس قبل خونین قتل عام کے متاثرین تلخ یادوں کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں جبکہ یہ سانحہ ان کیلئے کسی ڈراونے خواب سے کم نہیں ہے ۔ 19جنوری1990کو اس واقعے سے صرف2روز قبل جگموہن کو دوسری مرتبہ جموںکشمیر میں بحیثیت گورنر بنا کر بھیجا گیا۔
واقعہ
فورسز نے اس رات علاقے میں گھر گھر تلاشیوں کا سلسلہ شروع کیا،جبکہ مقامی لوگوں سے عسکریت پسندوں اور اسلحہ کے بارے میں پوچھ تاچھ کی۔اس دوران یہ خبریں گشت کرنے لگی کہ فورسز نے گھر گھر تلاشیوں کے دوران خواتین ے ساتھ زیادتیاں کیں۔یہ خبریں پورے کشمیر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ گھروں سے باہر آئے اور جلوس کی صورت میںپائین شہر کی طرف رخ کیا۔جب لوگ گائو کدل،پل پہنچے،وہاں پر موجود پہلے سے تعینات سی آر پی ایف اہلکاروں نے اندھا دھند فائرنگ کی،جس کے نتیجے میں 50افراد جان بحق ہوئے اور دیگر سینکڑوں زخمی بھی ہوئے۔پولیس نے اس سلسلے میں ایک کیس زیر نمبر 3/1990 پولیس تھانہ کرالہ کھڈ میں21جنوری11بجکر45منٹ پر زیر دفعات 148, 149, 307, 188 RPC, 153 آر پی سی درج کیا۔ایف آئی آر کے مطابق مختلف علاقوں سے آئے لوگوں نے کرفیو کی خلاف ورزی کی،اور گائو کدل کے نزدیک جمع ہوئے،جبکہ لوگ بھارت کے قبضے کے خلاف نعرہ بازی کر رہے تھے،اور کشمیر سے فوج اور نیم فوجی دستوں کے انخلاء کا مطالبہ کر رہے تھے۔
روداد متاثرین
اس قتل عام کی تلخ یادیں اب بھی اس خونین واقعے میں زندہ بچنے والے لوگوں کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا ہے،کیونکہ انہوں نے موت کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔جن لوگوں نے اس سانحہ میں اپنی جانیں گنوا دیں،ان کے اہل خانہ بھی ذہنی طور پر متاثر ہوئے،جبکہ27برس بعد بھی وہ ابھی انصاف کے متلاشی ہے۔گائو کدل واقعے پر تلخ یادوں کوسمیٹتے ہوئے سابق چیف انجینئر اور چشم دید گواہ انجینئر فاروق احمد وانی نے اُس واقعہ کو ناقابل فراموش قرار دیا۔ 21جنوری 1990کو گائو کدل میں پیش آئے سانحہ کی تلخ یادوں میں کھوتے ہوئے سابق چیف انجینئر میکنیکل فاروق احمد وانی کیلئے یہ سانحہ جیسے کل کی بات ہے جس کو ابھی تک وہ فراموش نہ کرسکیں۔انجینئر فاروق احمد وانی کا کہنا ہے’’ جب وہ گائو کدل پُل پر پہنچے تو دوسری طرف سے آنے والے جلوس پر بسنت باغ سب ڈویژن میں تعینات سی آر پی ایف اہلکاروںنے بلا اشتعال اندھا دھند فائرنگ کی جس کے ساتھ ہی لوگ پکے ہوئے سیبوںکی طرح گرنے لگے ‘‘۔اس سانحہ میں جاں بحق ہوئے ایک اور شخص علی محمد کے فرزند روف علی ساکنہ صدر بل حضرتبل نے کہا کہ اس واقعے کے دوران ان کے والد کو اُس وقت ہلاک کیا گیا جب وہ پاس ہی موجود ٹیکسی اسٹینڈ میں اپنی گاڑی کو دیکھنے گئے تھے اور اس دوران انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ سے وہ زخمی ہوئے اور بعد میں 8فروری 1990کو جاں بحق ہوئے ۔سانحہ کے ایک چشم دید گواہ گلزار احمد اس واقعے میںمعجزاتی طور پر بچ گئے،کیونکہ انہوں نے موت کے رقص میں مرنے کا ڈرامہ بھی کیا۔گلزار کی عمر اس وقت16برس کی تھی۔اس کا کہنا ہے کہ سی آر پی ایف لوگوں پر اندھا دھند فائرینگ کر رہے تھے،اور انہوں نے بسنت باغ کی طرف سے پل کے آکر میں ایل ایم جی نصب کی تھی۔علی محمد بٹ کا کہنا ہے کہ اس کا بیٹا محمد عرفان بٹ اس واقعے میں جان بحق ہونے والا سب سے کم عمر نوجوان تھا۔ ایک اور جان بحق شہری فاروق احمد کی دختر سلطنت نے اپنے والد کی تصویر دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ میرے بہادر والد ہے،جنہوں نے کئی لوگوں کی جانیں بچانے کیلئے21جنوری1990کو گائو کدل میں اپنی جان کی قربانی پیش کی۔سلطنت اس وقت4 برس کی تھی،جب یہ واقعہ پیش آیا۔فاروق احمد کیبل کار کارپوریشن میں ڈرائیور تھے۔ فاروق احمد نے کئی خواتین کو سی آر پی ایف کی بندوقوں کا نشانہ بنانے سے بچایا،اور انکے سامنے کھڑے ہوئے،جس کے دوران اپنے سینے پر10گولیاںکھائی۔ گائو کدل سانحہ میں فاروق احمد کے علاوہ3دوستوں نے بھی اپنی جان دی،رئووف وانی،علی محمد میر ساکن گونی کھن،جو کہ بشری حقوق کارکن خرم پرویز کے نانا بھی تھے،اور غلام محمد شیخ،بھی خواتین کے سامنے کھڑے ہوئے،جنہیں سی آر پی ایف اہلکار نشانہ بنا رہے تھے۔ فاروق اور روف نامی دو دوستوں نے بیس ،بیس گولیاں اپنے جسم پر کھائیں۔پولیس کے ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اس سانحہ میں22افراد جان بحق ہوئے جبکہ حقوق انسانی گروپوں اور مزاحمتی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس خونین واقعے میں50افراد کی جانیں گیں،جبکہ سینکڑوں جسم چھلنے ہوئے۔
کیس کی پیش رفت
اس خونین قتل عام کے27برس گزرنے کے بعد بھی کسی بھی عدالت میں آج تک کوئی بھی چالان پیش نہیں کیا گیا،اور متاثرین ابھی بھی حصول انصاف کے منتظر ہیں۔ یکم اپریل2012کو ایک عرضی زیر نمبر SHRC/112/SGR/2012. دائرکی۔عرضی میں درخواست کی گئی گئی کہ انسانی حقوق کا کا ریاستی کمیشن سانحہ گائو کدل کی جانچ کیلئے تحقیقاتی ٹیم کو تشکیل دیا جائے۔انٹرنیشنل فورم فار جسٹس نے تحقیقاتی افسر پر زور دیا کہ وہ آزادانہ تحقیقات کریں۔عرضی دائر کرنے کے بعد بشری حقوق کے ریاستی کمیشن نے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس،مرکزی سیکریٹری برائے داخلہ،ریاستی سیکریٹری داخلہ اور آئی جی پی کشمیر سے اس واقعے سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن نے،ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اور ضلع ترقیاتی کمشنر نے خونین واقعے، اور اس میں جان بحق و زخمی ہونے والوںسے متعلق عبوری رپورٹ طلب کی،تاکہ انکے کیسوں کی معقول انداز سے پیش رفت ہو۔ انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن نے9مئی2012کو اس سلسلے میں پہلی نوٹس جاری کی،جس میں کہا گیا’’ ضلع ترقیاتی کمشنر،کمیشن کو اس بارے میں بھی جانکاری دیں،کہ جان بحق ہونے والے افراد میں کسی کے لواحقین کو پہلے ہی کسی طرح کا ریلیف فرہم کیا گیا ہے‘‘۔26دسمبر2012کو بشری حقوق کے ریاستی کمیشن کے ڈویژن بینچ نے کمیشن کی تحقیقاتی شعبے کو اس معاملے کی تحقیقات کرنے کی ہدایت دی۔4 برسوں کے بعد13مارچ2017کو بشری حقوق کے ریاستی کمیشن کے تحقیقاتی شعبے نے اس سلسلے میں اپنی رپورٹ پیش کی۔
رپورٹ میں کیا تھا
رپورٹ میں اتھارٹیوں(انتظامیہ و پولیس) کی طرف سے اس روز کرفیوں کے نفاذ کے بارے میں متضاد رپورٹیں سانے آئیں۔ریاستی پولیس کے سربراہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ اس روز کرفیو کا نفاز عمل میں لایا گیا تھا،تاہم اتھارٹی اس روز گائو کدل علاقے میں مجسٹریٹ سے متعلق تفصیلات فراہم کرنے میں ناکام ہوئی۔پولیس اسپتال سرینگر اور دیگر اسپتالوں سے موصول ریکارڈ کے مطابق اس واقعے میں22افراد جان بحق جبکہ42زخمی ہوئے۔سانحہ کے حوالے سے پولیس تھانہ کرالہ کھڈ میں کیس درج کیا گیا،تاہم8برسوں کے بعد1998میں اس کیس کو ’’پتہ نہیں چلا‘‘ کے زمرے میں ڈال کر بند کیا گیا،جبکہ عدالت میں حتمی رپورٹ عدلیہ کے تعین کیلئے پیش نہیں کیا گیا۔ ضلع ترقیاتی کمشنر سسرینگر کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق، سرکاری حکم نامہ زیر نمبر145/R/520-523/AC محرر 26-07-1990, کے مطابق سانحہ کے وقت رائج ایکس گریشا ریلیف کے تحت فی فرد25ہزار روپے 6جان بحق ہونے والے لوگوں کے نزدیکی رشتہ داروں کو فراہم کئے گئے۔یہ بات غیر واضح ہے کہ اس سانحہ میں جان بحق ہونے والے دیگر لوگوں کے اہل خانہ اور نزدیکی رشتہ داروں کو کیوں نظر انداز کیا گیا،اور انکے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں رکھا گیا۔ قتل عام میں جان بحق ہونے والے کچھ لوگوں نے تحقیقات کے دوران اپنے بیان میں کہا کہ انہیں10ہزار روپے کا معاوضہ اور ایس آر ائو43کے تحت دیگر مرعات فرہم کیں گئے۔
پولیس نے رپورٹ پیش کی
پولیس کے انسپکٹر جنرل آف پولیس نے22نومبر2017کو انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن کے سامنے ایک رپورٹ پیش کی،جس میں کہا گیا کہ کس کے سلسلے میں8ستمبر2013 کو ریاستی پولیس ہیڈ کواٹر کے پراسکیوشن سیکشن نے کیس سے متعلق ڈائری ہیڈ کانسٹبل غلام احمد زیر نمبر4165/sزیر ڈی ڈی آر نمبر18 پیش کی ہے۔پولیس رپورٹ میں کہا گیا’’یہ بات واضح کرنی ضروری ہے کہ ایس پی انسانی حقوق کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اتھارٹی اس روز گائو کدل علاقے میں مجسٹریٹ سے متعلق تفصیلات فرہم کرنے میں ناکام ہوئے،مکمل طور پر نادرست اور غلط فہمی پر مبنی ہے‘‘۔پولیس نے رپورٹ میں اس قتل عام میں مرنے والے22افراد کی نشاندہی کی ہے،جبکہ12ایسے افراد کی نشاندہی بھی کی،جو اس واقے میں زخمی ہوئے،تاہم بشری حقوق گروپ،پولیس کے دعویٰ کی نفی کرتے ہوئے یہ مانتے ہیں کہ اس خونین واقعے میں250افراد زخمی ہوئے،جبکہ50شہری جان بحق ہوئے۔