ملک کی دیگر ریاستوں کی طرح ریاست جموں و کشمیر میں بھی گئو رکھشاکے نام پر تشدد آمیز واقعات رونما ہوتے آرہےہیں، جن میں تشدد پر آماد ہ عناصر بغیر کسی تحقیقات اور پولیس کی کارروائی کے قانون اپنے ہاتھوں میں لیکر کہیں گاڑیوں کو نذر آتش کررہے ہیں تو کہیں بے گناہ شہریوں کی مارپیٹ کر رہے ہیں ۔گزشتہ دنوں جہاں یو پی(اترپردیش) کے بلند شہر میں گھائو رکھشاکے نام پر دنگا فساد کے دوران ایک پولیس افسر کو ہلاک کردیا وہیں جموں کے ضلع کٹھوعہ کے ہیرا نگر علاقے میں مویشی لے جارہے ایک ٹرک کو بغیر کسی تحقیقات کے نذر آتش کردیاگیا ۔بظاہر ان واقعات کی انجام دہی مویشیوں کی غیر قانونی طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کے نام پر ہوتی ہے لیکن ان واقعات میں اس قدر لاقانونیت پائی جاتی ہے جس کی کہیں کوئی مثال نہیں ملتی اور تشددبرپا کرنے والے عناصر قانون کی ذرا برابر بھی پرواہ نہیں کرتے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ کٹھوعہ کے ہیرا نگر علاقے میں گزشتہ روز ایک ٹرک کو اس وقت آگ لگادی گئی جب اس کے اندر سے آٹھ گائیں اور بھینسیں برآمد ہوئیں ۔ ابھی تک پولیس بھی اس نتیجہ پر نہیں پہنچی کہ یہ مویشی قانونی طور پر منتقل کئے جارہے تھے یا کہ ان کی منتقلی غیر قانونی طور پرہورہی تھی لیکن پرتشدد ہجوم نے اس کا تعین ہونے سے پہلے ہی گاڑی کو آگ لگاکر لاکھوں کا نقصان کردیا۔ خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ گاڑی کا ڈرائیور اور کنڈیکٹر ہجوم کو دیکھتے ہی جان بچا کر بھاگ جانے میں کامیاب ہوئے وگرنہ انکا کیا انجام ہوتا ، یہ کہنے کی غالباً ضرورت نہیں۔ اس سے قبل بھی رونما ہوئے واقعات میں دیکھا جا چکا ہے کہ ایسے واقعات کسی تحقیقات کے بغیر ہی پیش آتے ہیں ، جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ دنگائیوں کا مقصد صرف فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینا ہوتا ہے۔ہیرا نگر واقعہ اسی روز پیش آیا جس روز گائے کو ذبح کرنے کے الزام میں پرتشدد مظاہرین نے یوپی کے بلند شہر میں ایک پولیس اہلکار کو ہلاک جبکہ ایک کو زخمی کردیا۔اس نوعیت کے واقعات میں کسی پولیس افسر کی ہلاکت کا یہ پہلا واقع ہے جبکہ اس سے قبل ملک کی مختلف ریاستوں میں بے گناہ عام شہریوں کو پیٹ پیٹ کرماراگیاہے ۔ریاست میں بھی ایسے واقعات تواتر کے ساتھ رونما ہوتے رہے ہیں جن میں بے گناہ شہریوں کی پٹائی کی گئی ہو یا پھر گاڑیوں کو نذر آتش کیاگیا ہو۔تاہم بدقسمتی سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سےپُرامن حالات کو بدامنی میں بدلنے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ،جس سے حوصلہ پاکر وہ ہر دم تشدد پر آمادہ رہتے ہیں ۔یہ امر اہم ہے کہ ریاست کی بہت بڑی آبادی مویشی پالن کے کام سے جڑی ہوئی ہے اور یہی مویشی اُس آبادی کیلئے بنیادی ذریعہ معاش بھی ہیں۔ان کی خرید و فروخت کے علاوہ انہیں پالنے پوسنے کےلئے انہیں موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہجرت کر نا پڑتی ہے اور اس کےدوران مال و مویشی کی منتقلی ایک لازمی امر بن جاتا ہے۔لیکن گئو رکھشا کے نام پر تشدد کرنے والوں کی طرف سے یہ نہیں دیکھاجاتاکہ مویشیوں کی منتقلی کس مقصد کیلئے ہورہی ہے بلکہ ان کا واحد مقصد صورتحال کو اپنے ہاتھ میں لیکر خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرناہوتاہے ۔اگر واقعی کوئی غیر قانونی طور پر مویشیوں کی منتقلی کرتاہے یاپھر قانون کی کوئی خلاف ورزی کرتاہے تو اس کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے پولیس موجود ہے نہ کہ گئو رکھشک قانون اپنے ہاتھ میں لے کر بلاوجہ گاڑیوں کو نذر آتش کریںاور عام شہریوں کی مار پیٹ کرکے امن و قانون کی صورتحال کو بگاڑنے کے در پے ہو جائیں۔ریاست میں امن و بھائی چارے اور قانونی بالادستی کیلئے ایسے واقعات پر روک لگانے کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنایاجاناچاہئے کہ ہر شہری اپنے دائرہ اختیار میں رہے اور تشدد پسند کارروائیوں پر قانونی کارروائی ہو۔کٹھوعہ کا واقعہ گورنر انتظامیہ کے لئے چشم کُشا ہونا چاہئے کیونکہ اگر اس کی تحقیقات اورذمہ دار عناصر کو قانون کے کٹہرے میںکھڑا کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی کا مظاہرہ ہوا تو یقینی طور پر فرقہ پرست اور فتنہ پرور عناصر صورتحال کو بگاڑنے میں کامیاب ہو جائیںگے۔