دن بھر کی دفتری مصروفیات سے فراغت پانے کے ساتھ ہی گھر کی جانب نکل پڑا تو حسب معمول مغرب کی اذان راستے میں ہی سنی ۔ خزاں کی سرد شام اور ہلکی بونداباندی سے بدن ٹھٹھر رہا تھا اور گاڑی کے انتظار نے مزید بےقرار کر دیا ۔ عجیب پریشانی میں مبتلا ہوکر ہر آتی گاڑی کا تعاقب کرتا رہا۔ گاڑی کے انتظار میں جب بہت وقت گزرا تو پریشانی کے عالم میں قسمت نے یاوری کی اور میں سواریوں سے کھچا کھچ بھری ایک بس میں سوار ہوا ۔ اپنی عادت سے مجبور میں نے بھیڑ کو چیرتے ہوئے وسط میں جگہ بنا لی۔ گاڑی آگے بڑھتی گئی اور میں اپنی ہی سوچوں میں گم، اپنی قسمت کو کوسنے لگا ، یہ کیا نہیں، وہ ہوا نہیں، یہ ہونا چاہیئے وغیرہ وغیرہ ۔
ابھی میں بیزاری کے تصور میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک بھری گاڑی میں سامنے کی سیٹ پر براجمان ایک جوان شخص زور سے چلایا ۔۔ ’’ کیوں نا ۔۔کیوں نا۔‘‘ میں گبھرا کر اسکی طرف دیکھنے لگا ۔
دنیا کے ستم سے ماند پڑا چہرا، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی ، گال جیسے مرجھائے ہوئے پھول بن چکے، پریشان بال ، پرانی جیکٹ، ہونٹوں پر سگریٹ کے جھلسا دینے والے دھویں کے کالے دھبے نمایاں تھے ۔ اسکی آنکھوں کے دریا میں خشکی پھیل چکی تھی ۔
سب لوگ اسکی یہ بے وقوفانہ حرکت دیکھکر ہنس رہے تھے ۔ کنڈیکٹر نے کرایہ مانگا اور اُس نے جلدی میں جیب سے کچھ پیسے نکال کر تھما دئے اور اپنی دھن میں مگن ہوگیا ۔ میں مسلسل اسے تکتا رہا ۔ وہ ہر پانچ منٹ کے بعد سر کھڑکی سے باہر نکال کر زور سے چلاتا ۔’’ کیوں نا ۔۔ کیوں نا ‘‘۔۔ جیسے وہ ظالم بے رحم دنیا سے شکوہ کرتا ، کوستا ۔۔ یا پھر اپنے اوپر ہوئے مظالم کا حساب مانگتا ۔
وہ اچانک کھڑا ہوا اور چلتی گاڑی سے کود کر زور زور سے چلّاتا ہوا غائب ہوا ۔ کسی نے بھی اسکی پرواہ نہیں کی سب اپنی اپنی باتوں میں مصروف ہوگئے ۔ اور وہ مظلوم سڑک پر دوڑ رہا تھا بے رحم دنیا کے قہقہے سہنے کے لئے ۔
میں گاڑی کی آخری سیٹ کے کونے میں بیٹھا اسی کے بارے میں قیاس آرائیوں میں مصروف تھا ۔ شاید یہ ہوا ہوگا اسکے ساتھ، یا ۔۔۔؟؟
گاڑی منزل پر رکی اور میں اپنے گھر کی جانب قدم بڑھانے لگا ۔ شہر پر تاریکی کا غلبہ ہوچکا تھا ۔ ہر سو سناٹا تھا۔ کہیں سے کسی بچے کے رونے کی آواز آرہی تھی ۔ اور میں اس غریب شخص کے عجیب الفاظ کے مانی کی تلاش میں نہ جانے کن سوچوں میں غرق ہو گیا تھا ۔
آگے بڑھتے ہر قدم کے ساتھ میں مضطرب اور منتشر ہو رہا تھا کہ اچانک بے فکری سے میرے حلق سے ایک چیخ نکلی بنا میرے ادارے اور فضا میں گونجی ۔۔۔
’’کیوں نا ۔۔ کیوں نا‘‘
اور میں پرسکون ہوکر زور زور سے ہنسنے لگا ۔۔
رابطہ؛ہندوارہ ۔موبائل نمبر؛9596253135