محمد امین اللہ
کینسر ایک نہایت ہی موذی مرض ہے ۔ یہ زمانہ قدیم سے لوگوں کو لاحق ہوتا ہے جس کو سرطان کہتے ہیں۔ کینسر کا نام سنتے ہی روح کانپ جاتی ہے ۔ یہ جس کو ہو جاتا ہے وہ بس خود کو موت کے منہ میں جاتا محسوس کرکے تل تل مرنے لگتا ہے ۔ یہ ایک طرح کا پھوڑا ہوتا ہے جو جسم کے اندورنی اور بیرونی حصوں میں ہوتا ہے ۔ جسم کے اندورنی حصے کا کینسر بیرونی حصوں کے مقابلے میں زیادہ مہلک اور تکلیف دہ ہوتا ہے ۔ یہ مرض مختلف وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے ۔ زیادہ تر کینسر نشہ کے عادی افراد کو ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ غیر متوازن غذاؤں کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ آج کل فاسٹ فوڈ اور کیمیکل زدو پانی یعنی گٹر باغیچہ میں پیدا ہونے والی سبزیوں کے استعمال سے بھی ہوتا ہے ۔ بہر حال اس کے وجوہات پر میڈیکل رپورٹ اس کالم کا مقصد نہیں ہے ۔ میری تحریر کا منشا یہ ہے کہ آج کل لوگ اس مرض کے خود خریدار بنے ہوئے ہیں ۔ دیکھتے ہیں کون کون اشیاء یا مضر صحت نشہ ہے جس کے خریدار متنبہ کرنے کے باوجود شوقیہ خریدار بنے ہوئے ہیں اور اس کے عادی ہو کر قابلِ رحم حالت میں اپنے انجام کو پہنچتے ہیں ۔
سگریٹ نوشی ۔ یہ ایک ایسا نشہ ہے جو صرف اور صرف شخصیت کی نمائش کے لئے پی جاتی ہے ۔ یورپ امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں اس کے پینے والے مرد و عورت کی یکساں تعداد ہے ۔ میڈیا کے ذریعہ جہاں اک طرف اس کے مضر اثرات اور پھیپھڑوں کے کینسر لگ جانے کی آگہی دی جاتی ہے بلکہ سگریٹ کے ڈبے پر تو کینسر زدہ پھیپھڑوں کی تصویر بھی بنی ہوتی ہے مگر دوسری جانب سیگریٹ بنانے والی کمپنیاں ہوس زر کی خاطر سگریٹ پینے والوں کو بڑے بڑے کارنامے دکھانے والے شخص کے طور پر اس کی فلموں کے ذریعہ تشہیر لاکھوں روپوں سے کرتے ہیں ۔ سگریٹ تو نوجوان طبقہ فیشن کے طور پر پیتا ہے اور پھر اس کا عادی ہوکر مر جاتا ہے ۔ اپنے گھر باہر اس طرح کے مریضوں کے عبرت ناک انجام دیکھنے کے باوجود یہ حرکتیں کرتا ہے ۔
شراب تمام مذاہب میں ممنوع اور حرام ہے ۔ شراب کی حرمت جب سورہ مائدہ میں نازل ہوئی تو جو صحابہ شراب پیتے تھے ،وہ اپنے تمام شراب کی برتنوں کو توڑ کر پھینک دیئے اور شراب کو بہا دیا ۔ گو کہ تمام دنیا میں عام طور پر شراب پی جاتی ہے مگر شراب بیچنے کا لائسنس جاری کیا جاتا ہے ۔ عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں شراب کشید کرنے والی بستی کو مکینوں کو نکال کر جلا دیا تھا ۔ مسلم دنیا میں یوں تو شراب پینے پر پابندی عائد ہے مگر عیسائی اور ہندوؤں کو لائسنس والی دکانوں سے شراب بیچی جاتی ہے اور انہیں کے آڑ میں مسلمان بھی شراب نوشی کرتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ شراب برائے سرور پیتے ہیں مگر شرابی جب نشے میں دھت ہوتا ہے تو یہ مدہوشی کے عالم میں لڑائی جھگڑا اور قتل و غارتگری پر آمادہ ہو جاتا ہے اور اس پرجنسی دیوانگی طاری ہو جاتی ہے ۔ شراب پینے والا اکثر جگر کے کینسر میں مبتلا ہو کر مرتا ہے ۔ اس کو شدید ہارٹ اٹیک بھی ہوتا ہے ۔ انگریزی اور فرانسیسی شراب تو عام آدمی کے دسترس میں نہیں ہے ،اس لئے غریب طبقے اور مزدور دیسی شراب پی کر موت کو گلے لگاتے ہیں ۔ اکثر اندھے ہو جاتے ہیں اور اجتماعی ہلاکتیں ہوتی ہیں، ہندوستان میں آئے دن ایسے واقعات اور حادثات ہوتے رہتے ہیں ۔ شراب پینے کے بعد جب جگر کا کینسر لاحق ہوتا ہے تو جسم کے تمام نظام بگڑنا شروع ہو جاتے ہیں اور آخر میں شرابی اپنے خریدے ہوئے کینسر کا شکار ہو کر عبرت ناک انجام کو پہنچ جاتا ہے۔ حکومتیں اس عوام دشمن نشہ کے مضر اثرات سے واقف ہونے کے باوجود اس پر اس لئے اس کی کشید بند نہیں کرتیں کہ یہ ایک بہت بڑی صنعت ہے اور زر مبادلہ کمانے کا ذریعہ ہے ۔یوں تو تمباکو نوشی ، بھنگ اورچرس قدیم زمانے سے لوگوں کا مرغوب نشہ ہے مگر اس کے موذی اثرات کینسر کی صورت تو نہیں ہوتے پھر بھی یہ دیگر جسمانی بیماریوں کے سبب بنتے ہیں ۔ چرس اور گانجا کے بارے میں یہ بات عیاں ہے کہ بڑے بڑے رؤسا بھی اس کو پیتے تھے اور آج بھی پیتے ہیں ۔ افیم سے تیار ہونے والا مہلک ترین نشہ ہیروئن ہے جس نے بیسویں صدی کے نصف سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ اس کی کشید اور تجارت تمام ملکوں میں ممنوع اور سخت ترین سزا ہونے کے باوجود ڈرگ مافیا کے لوگ نہایت منظم انداز میں کرتے ہیں کیونکہ یہ اربوں ڈالر کا کاروبار بن چکا ہے ، اس میں انسداد منشیات کے حکومتی اہلکار بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس کے اسمگلر جب پکڑے جاتے ہیں تو موت کی سزائیں سعودی عرب ، چائنہ اور دیگر ملکوں میں دی جاتی ہے ۔ اس کے پینے والے تو بدترین انجام کو پہنچتے ہیں ۔اب ایسے نشے کا ذکر کروں گا جس کا آغاز 90 کے دہائی میں ہوا اور آج عالم یہ ہے کہ پاک وہند کے بیشتر نوجوان حتیٰ کے اب کم عمر بچے بھی اس کے عادی ہو چکے ہیں، وہ ہے گٹکا۔ ایک ایسی عادت ِبد جس کے استعمال کرنے والے چند سالوں میں منہ اور حلق کے کینسر میں مبتلا ہو کر عبرت ناک موت سے دوچار ہو رہے ہیں ۔ اس کے استعمال سے پہلا اثر تو یہ ہوتا ہے کہ چند مہینوں میں اس کے عادی لوگوں کا منہ مشکل سے کھلتا ہے ۔ منہ اتنا گندہ ہو جاتا ہے کہ دیکھنے سے ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک گندہ کموڈ ہے ۔ سرکاری اسپتالوں میں تو اس کے عادی مریضوں کا علاج کرنے سے ڈاکٹر منع کر دیتے ہیں ۔ اس کے استعمال کرنے والوں کے منہ کے سیل مر جاتے ہیں ۔ اس میں کچی سڑی ہوئی کسیلی ، چونا اور دیگر ایسی مضر صحت چیزوں کا استعمال ہوتا ہے جو ہلاکت خیز ہے، کچی کسیلی اگر پیس کر حاملہ عورت کو پلا دیا جائے تو اس کا حمل گر جاتا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ چرند و پرند بھی پیار محبت کا آغاز چونچ ملا کر کرتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ گٹکا خور اگر شادی شدہ ہیں تو یہ اپنی ازدواجی زندگی کا لطف کیسے اٹھاتے ہیں جبکہ ان کے منہ بدبو دار اور غلیظ ہوتے ہیں ۔ میں نے کئی ایسے نوجوانوں کو اس کے استعمال کے بعد منہ کے کینسر میں مبتلا ہو کر مرتے دیکھا ہے ۔ اس کا استعمال عام ہو چکا ہے ۔ یہ جہاں پیک پھینکتے ہیں وہ جگہ بھی گندی ہو جاتی ہے ۔ اپنا ایک مشاہدہ پیش کرتا چلوں کہ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ اس طرح کے ایک مریض کی عیادت کو گیا تو اس نے روتے ہوئے ہاتھ پکڑ کر کہا کہ میری موت کی دعا کر دیں، میں نے کہا بھائی میں تو صحت یابی کی دعا کرنے آیا ہوں۔ اس نے مشکل سے ذرا سا اپنا منہ کھولا اور میں دیکھ کر کانپ گیا کہ اس کے منہ میں لا تعداد کیڑے چل رہے تھے، وہ شخص جو علاقے میں بڑا دبدبہ رکھتا تھا چند دنوں بعد عبرت ناک انجام کو پہنچ گیا ۔ یہ تفریحی نشہ خاموش قاتل کی طرح تل تل کرکے بڑی تعداد میں نسل نو کی ہلاکت کا سبب بن رہا ہے اور یہ گھناؤنا کاروبار جاری ہے ۔ عوام کو آگہی دینے کی ضرورت ہے اور آج کل سوشل میڈیا کے ذریعہ درد دل رکھنے والے اس کے خلاف مہم چلائیں تاکہ ہماری نسل تباہی سے بچ جائے ۔