ٹی ای این
سرینگر//کیلیفورنیا کے اخروٹ جو امریکہ سے بھارت درآمد کئے جاتے ہیں، ستمبر سے نومبر کے دوران درآمدات میں دگنا سے بھی زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جوگذشتہ برس مرکزی حکومت کی جانب سے کلیدی خشک میوہ جات پر کسٹم ٹیرف کو ہٹانے کے بعد سے دیکھا گیا ہے ۔امریکہ سے درآمدات بڑھنے اور مقامی اخروٹ پیداوار کو موسمیاتی چیلنجز سے پریشان کشمیری اخروٹ بیوپاریوں نے حکومت سے اس معاملے میں نظر ثانی کی اپیل کی ہے ۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے 9-10 ستمبر کو ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس میں شرکت کیلئے نئی دہلی کے دورے سے دو دن قبل، ہندوستان نے تقریباً نصف درجن امریکی اشیا پر اپنی اضافی کسٹم ڈیوٹی ختم کر دی جو 2019 میں امریکہ کی جانب سے بعض مصنوعات پر محصولات بڑھانے کے جواب میں عائد کی گئی تھیں۔ فی الحال، چلی ہندوستان کو اخروٹ کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے جس کا مالی سال 23 میں 75.3 فیصد حصہ ہے جو کہ FY18 میں 29.7 فیصد حصہ تھا۔کیلیفورنیا کے اخروٹ ستمبر سے نومبر تک چھانٹے جاتے ہیں اور سال بھر بھیجے جاتے ہیں۔کیلیفورنیا، چین اور چلی سے اخروٹ کی بھاری برآمدات وادی کی اخروٹ کی صنعت کو متاثر کر رہی ہیں، جو اس وقت ملک بھر میں اس خشک میوہ کی کم مانگ دیکھ رہی ہے۔ کاشتکاروں کادعویٰ ہے کہ بیرونی ممالک سے اخروٹ کی بھاری برآمدات کی وجہ سے مسلسل چھ سالوں سے اخروٹ کی مانگ کم ہے۔اس سے قبل اخروٹ بیوپاریوں نے بتایاتھا کہ ہندوستان کی منڈیوں میں اخروٹ کی مانگ کم ہے اور اس سیزن میں اخروٹ کی گٹھلی کے نرخ تقریباً 50 فیصد کم ہو گئے ہیں۔بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ ایک اعلیٰ قسم اخروٹ دانا، جسے 1200 روپے فی کلو گرام میں فروخت کیا جاتا تھا اب 700 روپے فی کلو گرام میں فروخت ہوتاہے ۔ اسی طرح قدرے کم معیاری اخروٹ 300 روپے فی کلو میں بکتاہے، جو اس وقت 150 روپے میں فروخت ہوتا ہے ۔کشمیری بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ کیلیفورنیا، چین اور چلی سمیت ممالک سے اخروٹ کی گٹھلی کی بھاری درآمدات کو کشمیر کی اخروٹ انڈسٹری کیلئے ایک بڑا دھچکہ ہے۔