کیلاموڑ رام بن میں گزشتہ دنوں پیش آئے سڑک حادثہ ،جس میں22مسافر جاں بحق ہوئے، ایک انتہا درجہ کا المناک حادثہ تھا، جس کی وجہ سے متعدد گھرانےبرباد ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس حادثہ پر جس قدر بھی غم و الم اور افسوس کا اظہار کیا جائے اتنا ہی کم ہے لیکن اُس سے زیادہ ریاستی انتظامیہ کی کارکردگی پر ماتم منانے کا جی کرتا ہے، جو 21ویں صدی کے اس جدید تر دور میں بھی ایسی المناک صورتحال سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے۔ ماضی میں جتنی بھی حکومتیں رہی ہیں وہ ٹریفک حادثات کی وجہ سے پید ا ہونے والی دلدوز صورتحال کو ایڈریس کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ فی الوقت ریاستی انتظامیہ نے اس واقع کی تحقیقات کرنے کےلئے ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے ، جو زیر بحث حادثہ کے تمام پہلوئوں کی جانچ کریگی اور یہ بھی دیکھنے کی کوشش کی جائے گی کہ کیا سرکاری محکمے ایسی صورتحال میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہوتے ہیں کہ نہیں ۔ انتظامیہ کا یہ اقدام خوش آئند ہے تاہم عمومی اعتبار سے اس بات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ایسے بیشتر حادثات کےلئے تیز رفتار ڈرائیونگ اور اوور لوڈنگ بنیادی وجوہات بنتے ہیں اور اسکےلئے محکمہ ٹریفک کنٹرول کو ذمہ داری سےمبرا نہیں کیا جاسکتا۔ خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب میں یہ حادثات زیادہ ہی بھیانک ثابت ہوتے ہیں جہاں خطرناک اور خستہ حال سڑکوں پر ڈرائیور کی معمولی سے غلطی بھی جانوں کے اتلاف کا سبب بن بیٹھتی ہے۔ دو روز قبل ہی ڈوڈہ میں ایک اور حادثہ میں 2جانوں کا اتلاف عمل میںآیا۔ اگرچہ حکومت یہ دعوے کرتی رہتی ہے کہ سڑک حادثات کو کم سے کم کرنے کیلئے متعدد اقدامات کئے گئے ہیں تاہم ہلاکتوں کےبڑھتے واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ نہ ہی ان حادثات میں کوئی کمی ہوئی ہے اور نہ ہی ان اہم نکات پر توجہ دی گئی ہے جو حادثات کا مؤجب بنتے ہیں ۔ پچھلے ایک سال کے دوران صرف جموں پونچھ قومی شاہراہ پر 73حادثات رونماہوئے جن کے نتیجہ میں 57افراد لقمہ اجل بنے۔حکومت کے مطابق سڑک حادثات کم کرنے کے مقصد سے ٹریفک قوانین کی پاسداری کو یقینی بنانے کے اقدامات کئے گئے ہیں اورخطرناک ڈرائیونگ ، ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کے استعمال ، دو پہیہ گاڑی پر دو سے زائدافراد کے سوار ہونے ،بغیر ہیلمٹ کے موٹرسائیکل چلانے والوں ، اورلوڈنگ اور اورٹیکنگ و ڈرائیورنگ کے دوران سیٹ بیلٹ کے استعمال نہ کرنے والوں کے خلاف ٹریفک پولیس کی طرف سے کارروائی کی جارہی ہے۔ساتھ ہی عوامی بیداری کیلئے ریلیاں ، سیمینار اور دیگر قسم کے پروگرام منعقد کئے جارہے ہیں ۔ تاہم اس سب کے باوجود حادثات کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آئی اور آئے روز قیمتی جانیں تلف ہورہی ہیں ۔اگر دیکھاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ ٹریفک پولیس اور دیگر حکام کی کارروائیاں اپنی کارکردگی کو بہتر دکھانے کیلئے زیادہ سے زیادہ چالان کرنے اور جرمانے عائد کرنے پر مرکوز ہوتی ہیں اور اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتاکہ ٹریفک کے مجموعی نظام میں کیسے سدھار لایاجاسکتاہے ۔دیہی اور دور دراز علاقوں میں سب سے بڑا مسئلہ مسافر بسوں کی ضرورت کے مطابق عدم دستیابی ہے اور جب لوگوں کو سفر کرنے کیلئے گاڑی نہیں ملتی تو وہ مجبوراًانہیںاور لوڈ میں سوار ہونا پڑتا ہےاور اس مجبوری کا ڈرائیور و مالکان بھی ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ جو بالآخر حادثات کا سبب بنتا ہے۔اوور لوڈنگ کی اجازت دیئے جانے کے لئے کون ذمہ دار ہیں؟ یہ دیکھنا بھی اس کمیٹی کا کام ہونا چاہئے، جو تشکیل دی گئی ہے۔حکومت کی طرف سے بارہا یہ اعلانات کئے گئے ہیں کہ سرکاری بسیں فراہم کی جائیںگی لیکن اس پر عمل درآمد نہیںہوسکا اور نہ ہی ایس آر ٹی سی سروس بہتر بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔اگر بیرون ریاست کا حال دیکھاجائے تو بیشتر ریاستوں میں سرکاری بس سروس نظام اس قدر مقبول اور کامیاب ہے کہ ہرکوئی ان ہی بسوں پر سفر کو ترجیح دیتاہے تاہم ریاستی حکام اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہے ۔ دوسرا بڑا مسئلہ سڑکوں کی خراب حالت ہے اور کئی سڑک پروجیکٹ دہائیوںسے زیر تعمیر ہیں جبکہ کئی سڑکوں کی تعمیر کے بعد پھر کوئی ان کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی جاتی جس سے ان کا حلیہ ہی بگڑ جاتاہے ۔ٹریفک قوانین توڑنے والوں کے خلاف کارروائی کرکے انہیں ٹریفک قوانین کا پابند بنانا کوئی مشکل کام نہیں اور یہ کام بڑی آسانی سے کیاجاسکتاہے مگر جب تک ہر ایک علاقے کے لوگوں کو بہتر سڑک روابط اور سفر کیلئے معقول بسیں فراہم نہیں ہوںگی تب تک لوگوں کی جانیں اسی طرح سے حادثات میں ضائع ہوتی رہیںگی اور ہر سال سینکڑوں افراد معذور بھی بنتے رہیںگے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سڑک حادثات پر قابو پانے کیلئے ٹرانسپورٹ نظام کو مستحکم بنایاجائے ۔ بہر حال ریاستی سرکار نے کیلا موڑ رام بن حادثہ کی تحقیقات کےلئے جو کمیٹی تشکیل دی ہے، اُسے واقعہ کی باریک بینی کے ساتھ تحقیقات کرکے حقائق کو منظر عام پر لانے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لینا چاہئے اور قواعد کے نفاذ میں لاپرواہی کے مرتکب ہونے والے افراد یا اداروں کےخلاف کاروائی کرنے میں کسی لیت و لعل کو قبول نہیں کرنا چاہئے۔