مقولہ عام یہی ہے کہ عورت کو اُس کی عمر نہیں پوچھنی چاہئے کیونکہ وہ کبھی اپنی صحیح عمر نہیں بتاتی۔ اور ہاں!اگر پوچھ ہی لی تو معلوم ہونے پر اُس میں دس کا ہندسہ جمع کرنا چاہئے۔ مشاہدہ یہی ہے کہ اگر عورت اپنے آپ کی طرف تھوڑی سی بھی توجہ کرے۔ جیسے صفائی ستھرائی، کچھ میک اپ وغیرہ تو یقینی طور وہ اپنی عمر سے کافی چھوٹی دکھائی دے سکتی ہے۔ یہ کوئی خوش آمد(Flatter) ہی ہے اورنہ کوئی حرفِ آخر(Compliment) کیونکہ عورت کی ساخت و پرداخت ہی قدرت نے ایسی تراشی ہے کہ اُس کا صنف نازک، عورت یعنی شرم و حیا اور مستور یعنی پردہ نشین اور پوشیدہ و مخفی شے جیسے باوقار الفاظ کے ساتھ تذکرہ کیا جاتا ہے۔ابتدائے آفرینش میں بھی ظاہر ا طور رب کائنات کا منشا اور باتوں کے علاوہ غالباً یہی رہا ہوگا کہ وسیع وعریض جنت کے دلنشین و دلفریبی ماحول میں حضرت آدم ؑ ماں حوا ؑ کی ہم نشینی میں کبھی تنہائی یا بوریت محسوس نہ کریں۔بہر حال آمدم برسرمطلب کہتے ہیں کہ ایک ماڈرن سوسائٹی میں ایک لیڈی محترمہ نے اپنی برتھ ڈے پارٹی پر کچھ خاص دوستوں اور جان پہنچان کے لوگوں کو بُلایا۔ مہمانوں میں ایک ایسا شخص بھی تھا جو لگ بھگ دس سال کے بعد لندنؔ سے واپس وطن لوٹا تھا۔ مہمان کی نظر برتھ ڈے کیک پر گئی جس پر چھتیس کا ہندسہ جلی حروف میں جھلک رہا تھا۔ کیک کا ٹا گیا سب حاضرین نے تالیاں بجا کر موصوفہ کو سالگرہ کی مبارک بادی دی اور پھر جب سب مہمان کھان پین اور نائو و نوش میں مشغول ہوگئے تو مہمان نے لیڈی محترمہ کے پاس جاکر کان میں سرگوشی کی۔
’’ معاف کیجئے گا مسز مودیؔ میر اخیال ہے کہ دس سال پہلے لندنؔ جانے سے قبل ہم نے آپ کا چھتیسواں برتھ ڈے منایا تھا ۔‘‘
مسز مودیؔ نے ایک شرارت آمیز مسکراہٹ اور ایک خاص ادا کے ساتھ ہاتھ کے اشارے سے مہمان کو ایک خوبصورت ڈانٹ پلائی۔ مہمان ریشہ خطمی ہوگیا اور چھیتالیس پر چھتیس کہ مہر ثبت ہوگئی۔
جس طرح عورتوں میں کچھ فطری خامیاں بیان کی جاتی ہیں۔ اُسی طرح ماہرین نفسیات نے مردوں کی بھی کئی ایک خامیاں گنائی ہیں جن میں سے خاص طور پر زن مریدی،ریا کاری، بے وفائی، عیش کوشی، بے شرمی، خوش فہمی، بے رحمی ، خود غرضی، لالچ وغیرہ کے ساتھ ایک مرد کا ٹھر کی ہونا بھی بتایا گیا ہے۔ اب اتنی ساری ’’صفات مردی‘‘ پر میں اپنے حصے کی دھوپ میں بیٹھ کر سب پر فی الحال تبصرہ تونہیں کرسکتا کیونکہ اُس میں اپنی بھی ہیٹی سو فیصد ممکن ہے کیونکہ ؎
خوشی سے اپنی رسوائی گوارا ہو نہیں سکتی
گریباں پھاڑتا ہے تنگ جب دیوانہ آتا ہے
اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فی الحال ہم ٹھرکی پر بات کرتے ہیں کیونکہ عام طور پر یہ بدصفت پکی عمر کے لوگوں میں پائی جاتی ہے جس میں جوان مرد، ادھیڑ اور بوڑھے سبھی شامل ہیں۔ البتہ معمولی سا فرق یہ ہے کہ جوان مرد محتاط انداز سے ، ادھیڑعمر کے لوگ موقعہ اور محل دیکھ کر اور بوڑھے کس بھی احتیاط کو خاطر میں لائے بغیر متحرک ہو جاتے ہیں۔ ایک محفل میں ایک بزرگ آدمی ایک نوجوان لڑکی کو پہلو میں بٹھائے کبھی اُس کو گلے لگا رہے تھے اور کبھی اُس کی پیٹھ تھپتھپاتے جا رہے تھے۔ اُن کے قریب ہی بیٹھے ایک نوجوان سے نہ رہا گیا۔ اُس نے جل بھن کر بزرگ سے کہا :۔
’’شرم کیجئے بڑے میاں، اور کچھ تو نہیں کم ازکم اپنی عمر کا ہی کچھ تو خیال کیجئے ‘‘۔
بڑے میاں نے بھی تڑ سے ترکی بہ ترکی کی جواب دیا۔
’’اس میں شرم کی کیا بات ہے۔ میں نے کیا بُرا کیا ہے۔ یہ لڑکی میرا آئیڈیل ہے۔ میں ایسی ہی بہو اپنے بیٹے کے لئے چاہتا ہوں۔‘‘چنانچہ بوڑھوں کے پاس اس خامی کو چھپانے کے لئے ایک معقول جواز ہوتا ہے کہ انہیں اپنے بیٹے کا گھر بسانے کیلئے ایک آئیڈیل بہو کی ضرور ت ہوتی ہے اور اس ضرورت کے تحت اُنہیں ہر جائز و ناجائز حرکت کرنے کی کھلی آزادی ہوتی ہے۔ اور وہ بزرگانہ شفقت کی آڑ لے کر کچھ ایسی حرکات کر گزرتے ہیں جو دوسرے اچھا نہیں سمجھتےہیں۔ نوجوان بہر حال اس آزادی اور فری لاینس سے محروم ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں نے اس کام کیلئے چند مخصوص طریقے اپنا رکھے ہیں جو ظاہری طور پر قطعی غیر دانستہ محسوس ہوتے ہیں۔ اور کوئی اُن پر شک نہ اعتراض کرتا ہے۔ مثلاً لڑکی کو چوڑیاں پہناتے وقت ہاتھوں کو خواہ مخواہ دبا دبا کر دیکھنا۔ ریز گاری لوٹاتے وقت ہتھیلی میں گُد گُدی کرنا۔ راہ چلتے وقت بڑی نفاست کے ساتھ کہنی مارنا، قریب سے گذرتے وقت انتہائی سرگوشیانہ انداز میں کوئی ذومعنی بات کہہ جانا۔ چلتے چلتے اچانک رُک کر یارُک کر پیچھے مُڑ کر دیکھنا جیسے اُس کے ساتھ کوئی اور ہو، اور اس طرح سے اپنے پیچھے آنے والی لڑکی کے ساتھ ٹکرا جانا۔ سرمحفل یا شادی بیاہ کی تقریب میںکسی لڑکی کی طرف گُھور گُھور کر دیکھنا۔ بس میٹا ڈار میں لڑکی کے ساتھ لگ کر کھڑے ہونے کی کوشش کرنا ۔ سکول کالج سے لوٹتے وقت لڑکیوں پر دوکانوں کی تھڑوں پر سے کاغذ کے جہاز اور بال وغیرہ پھینکنا۔ گلی کے نکڑوں پر انتظار کرکے لڑکیوں پر فقرے کسنا یا اور کوئی گندی حرکت کرنا سب نوجوانوں کی عادات اور شرارتوں میں شامل ہیں۔ اس طرح سے وہ اپنے سفلی جذبات کی خانہ پُر ی کرتے ہیں۔ گر چہ ہوتا کچھ نہیں ہے مگر فی الواقعہ جنس مخالف پریشان ہوا ُٹھتا ہے۔ بالکل اُسی طرح جیسے آجکل کے ترقی یافتہ ماحول اور مُخرب اخلاق نظام تعلیم و تربیت کی موجودگی میں موٹر سائیکلوں، سکوٹروں اور سکوٹیوں پر سوار نوجوان لڑکے، لڑکیوں کو ٹکر مارتے ہیں۔ اور زیادہ ایڈوانس ماحول میں چہرے پر تیز آب چھڑک کر لڑکی کی زندگی کو ایک دہکتا ہوا نگارہ بنا کر اُس کے سارے اور ارمان خاک میں ملادیتے ہیں۔ اور بعض اوقات گاڑی کی زد میں لاکر زندگی کاخاتمہ ہی کردیتے ہیں۔
ایک مرتبہ بس میں سفر کے دوران مردوں کا یہ عیب اور کمزوری اورا س طرح سے کُھل کر سامنے آگئی کہ شریف لوگوں کو حیرت ہوئی اور باقی مرد شرمندہ ہوگئے مسافر بس ایک گائوں کے قریب سے گذر رہی تھی کہ اچانک پچھلی سیٹ سے ایک نُقرئی زنانہ آواز گونجی۔
’’ ڈرائیور صاحب زرا بس کو روکو میں کپڑے اُتار لوں گی ‘‘۔
دوسرے ہی لمحے تقریباً تمام مسافر مردوں مع ڈرائیور کے سر بجلی کی سرعت کے ساتھ پیچھے کی جانب گھوم گئے دیکھا تو وہاں پُرانے کپڑوں کے عوض پلاسٹک کا سامان بیچنے والی لڑکی پُرانے کپڑوں کاگھڑابس کے شیلف سے نیچے اتار رہی تھی۔ سارے مرد شرمندہ ہو کر کھسیانی ہنسی ہنس کر ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔
بہت سے ایسے معزز پیشہ افراد بھی ہیں جو اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں اس عادت سے مجبور ہو کر کوئی نہ کوئی غیر شائستہ حرکت کر جاتے ہیں۔ کچھ لوگ زبانی کلام سے اپنا دل ٹھنڈا کر لیتے ہیں جیسے کپڑا بیچنے والے تھان سے کپڑا کاٹتے وقت کچھ ایسے ذومعنی فقرے چُست کر جاتے ہیں کہ شریف عورتیں حیرت سے اُن کا منہ تکتی رہ جاتی ہیں۔ وہ بہت سنسنی خیز جملے ہوتے ہیں۔ حفظ ما تقدم کے طور پر اور اُن پیشوں سے وابستہ لوگوں کی ساکھ خراب نہ کرنے کے پیش نظر امثال کو صرف نظر کیا جاتا ہے۔
اس کا ہر گزیہ مطلب نہیں کہ ہر ایک مرد ٹھرکی ہوتا ہے۔ کچھ ہوتے ہیں اور کچھ نہیں بھی ہوتے ہیں۔ تاہم نہ ہونا ہی افضل ہے کیونکہ اخلاق زندگی کا ایک بہت بڑا سرمایہ اور ایک انسان کا بہترین گُھن ہوتا ۔ سچ کھل کر ہی بیان کرتا مگر… کیسے کہوں معذرت خواہ ہوں ۔
رابطہ:-پوسٹ باکس :691جی پی او رینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995