رئیس احمد کمار
نور شاہ برصغیر کے ممتاز ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔ موصوف ضعیف العمر ہونے کے باوجود بھی اپنے طاقتور قلم سے مضامین، تبصرے، افسانے اور افسانچے تخلیق کررہے ہیں۔ ان کی تحاریر مسلسل روزناموں، ہفت روزہ اخبارات اور رسالوں میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ کئی دہائیوں سے لگاتار ادبی خدمات انجام دے رہے ہیں اور ادبی محفلوں میں ان کی حاضری کو ادبی حلقے اپنے لئے باعث فخر گردانتے ہیں۔ درجنوں تصانیف کے خالق ہونے کے باوجود نور شاہ کو بحیثیت ایک افسانہ نگار ہی ادبی دنیا میں مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ عصمت چغتائی اور کرشن چندر جیسی اہم شخصیات بھی نور شاہ کی تحاریر کو پسند کرتے اور سراہتے ہیں۔
ان کی تصانیف میں ’’کیسا ہے یہ جنون‘‘بھی شامل ہے جس میں افسانے، ریڑیائی ڈرامے، افسانچے، تراجم، فلمی فیچر اور سیلاب کی کہانیاں شامل کی گئی ہیں۔ یہ تصنیف 257 صفحات پر مشتمل ہے جس میں کئی نامور ادبی ستاروں کے مضامین کو بھی شامل کیا گیا ہے جنہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر نور شاہ کے ادبی سفر کو صفحہ قرطاس پر لانے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ اس کتاب پر پہلا تبصرہ ڈاکٹر جوہر قدوسی صاحب نے’نور شاہ: کشمیر، کرب، کہانی عنوان کے تحت تحریر فرمایا ہے جو نو صفحات پر مشتمل ہے۔ موصوف نے نور شاہ کی ادبی زندگی اور کارناموں پر ایک مفصل مضمون لکھا ہے۔ ان کے مطابق نور شاہ نے کم و بیش نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط اپنے ادبی سفر کے دوران بے شمار افسانے لکھے ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعوں جن میں بے گھاٹ کی ناو، ویرانے کے پھول، ایک تھی ملکہ، گیلے پتھروں کی مہک، من کا آنگن اداس، آسمان پھول اور لہو، بے ثمر سچ، اور کشمیر کہانی اور کئی ناولوں جیسے نیلی جھیل کالے سائے، پائل کی زنجیر اور آدھی رات کا سورج وغیرہ پر مختصراً تبصرہ پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر جوہر قدوسی کے مطابق معاصر اردو افسانہ نگاروں میں چند ایک کو ہی نور شاہ کے مدمقابل رکھا جاسکتا ہے۔ وہ کسی مخصوص سیاسی نظریہ، سماجی تصور کی حمایت یا مخالفت نہیں کرتے، ادب کے کسی گروہ سے بھی وابستہ نہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اتنے بڑے ادیب اور افسانہ نگار کو ابھی تک کوئی بڑا انعام نہیں دیا گیا ہے۔ بقول ڈاکٹر جوہر قدوسی نور شاہ اپنی کشمیر کی کہانیوں کے زریعے ادب میں سچ اور صرف سچ کے ایماندارانہ بیان کا ایک نیا رجحان پیدا کیا ہے۔ ملک کی نامور قلمکار ڈاکٹر شمع افروز زیدی نے ‘’نور شاہ کی کہانیاں‘ عنوان کے تحت ایک منفرد اور طویل مضمون قلمبند کیا ہے۔ نور شاہ کی پیدائش سے لے کر جوانی کی منزلیں طے کرنے، پھر عمر بڑھنے کے ساتھ مزاج میں پختگی آنے تک کے سفر کو ڈاکٹر شمع افروز نے نہایت سلیقے سے بیان کیا ہے۔ بقول ان کے نور شاہ نے پہلی کہانی ’’گلاب کا پھول‘‘ ماہنامہ بیسویں صدی کو بجھوادی جو بعد میں شائع بھی ہوئی جس سے ان کے شوق کو مزید جلا ملی اور یوں وہ مسلسل کہانیاں لکھنے لگے۔ ماہنامہ بیسویں صدی کو ہر عمر کے لوگ پڑھتے ہیں اور بقول ڈاکٹر شمع افروز ان کی والدہ نور شاہ کی کہانیاں بچپن سے ہی بڑی دلچسپی سے پڑھا کرتی تھی جب یہ رسالہ ان کے گھر آتا تھا اور خود بھی ان کی پہلی کہانی بیسویں صدی میں ہی تب پڑی جب وہ آٹھویں درجہ کی طالبہ تھی۔ پھر وہ لگاتار ان کی کہانیاں پڑھ کر انہیں تلاش کرنے کی جستجو میں لگی۔ ان کی تلاش تب ختم ہوئی جب یہ عظیم فنکار پہلی بار ۱۹۸۱ ء میں دفتر بیسویں صدی دریا گنج میں نیر صاحب سے ملاقات کی غرض سے آئے تھے۔ بقول ڈاکٹر شمع افروز نور شاہ وہ فنکار ہے جس کی کہانیاں پڑھ پڑھ کر اس نے شعور کی منزلیں طے کی ہیں۔ نور شاہ کا ادبی سفر چھ دہائیوں پر محیط ہے اور تاحال ان کا یہ سفر اسی انداز اور قوت سے رواں دواں ہے۔ محکمہ زراعت، دیہی ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی میں ڈائریکٹر اور ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز رہنے کے ساتھ ساتھ نور شاہ کہانیاں بھی تخلیق کرتے رہے۔ ان کا زہن بےحد زرخیز اور خلاق ہے، کشمیری ہونے کے ناطے وادی کے چپے چپے سے واقف ہیں، اس کی خوبصورتی اور حسن کو خوبصورت انداز میں انہوں نے صفحہ قرطاس پر بکھیرا ہے۔ مشہور ناول نگار دیپک بدکی نے بڑی عرق ریزی سے ایک طویل مضمون ’’نور شاہ کا تخلیقی سفر‘‘ عنوان کے تحت تحریر کیا ہے۔ بقول ان کے نور شاہ ایک ایسے تخلیق کار ہیں جو اپنے دل میں پون صدی کے تغیرات، انقلابات، قوم کا المیہ، اپنوں سے بچھڑنے کا غم اور انسان کا دردوکرب لیے ہمیں آج اپنے افسانوں اور کہانیوں سے محظوظ کررہے ہیں۔ عبدالقادر سروری فرماتے ہیں کہ نور شاہ وادی کے افسانہ نگاروں میں غالباً سب سے زیادہ لکھنے والے افسانہ نگار ہیں، کہانی لکھنے میں انہیں نہ صرف زوق ہے بلکہ سلیقہ اور اچھا سلیقہ ہے۔ نور شاہ کے سبھی بھائی اردو ادب کی طرف مائل تھے، سرینگر کے مشہور ڈلگیٹ علاقے میں اپنا بچپن اور لڑکپن گزارنے والے اس ادیب نے اسی ماحول سے ترغیب پاکر افسانے کو اپنے اظہار کا زریعہ بنایا اور عمر بھر اس کے ہوکر رہ گئے۔ دیپک بدکی مزید فرماتے ہیں کہ نور شاہ کو بچپن ہی سے افسانہ نگاری کا شوق رہا لیکن ان کی ادبی زندگی کی باضابطہ شروعات ۱۹۵۸ میں ہوئی۔ ۱۹۵۹ میں ’’ہمارا ادب‘‘ کے انتخاب کے لیے ان کی ایک کہانی ’’گلاب کا پھول‘‘ چن لی گئی۔ دیپک بدکی نے نور شاہ کی ادبی زندگی اور ادبی کارناموں کا وسیع احاطہ کیا ہے اور ان کے ہر افسانوی مجموعے و ناول پر مختصراً قاری تک بات پہچانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ بقول دیپک بدکی نور شاہ نے تین ناولٹ، ساٹھ سے زیادہ ریڑیائی ڈرامے لکھے ہیں جو ریڑیو کشمیر سرینگر اور جموں سے نشر ہوچکے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ نور شاہ نے دوردرشن سرینگر کے لیے کئی ٹیلیویژن سیریل جیسے ‘دردکا رشتہ، گل اور بلبل، تلخیاں اور سفر زندگی کا وغیرہ تحریر کئے ہیں۔ نور شاہ کے افسانوں پر جدیدیت کا اثر بہت کم نظر آتا ہے ، وہ استعاراتی و علاماتی چیستاں سے پرہیز کرتے ہیں اور اپنے جزبات کا اظہار کھل کر کرتے ہیں۔ ڈاکٹر اشرف آثاری جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے اور جو نامی گرامی افسانہ نگار کی حیثیت سے جانے جاتے تھے نے بھی ‘’نور شاہ میری نظر میں‘ عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے۔ ڈاکٹر اشرف آثاری فرماتے ہیں کہ وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے کہانی کار نور شاہ کا نام نہ صرف ملکی سطح پر ہی بلکہ اردو زبان و ادب کے عالمی منظرنامے پر بھی انہیں ایک قابل قدر مقام حاصل ہوچکا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ نور شاہ کی نثر نگاری میں ایک خوبصورت آہنگ بھی ہے ایک دلفریب ترنم بھی ہے۔ ڈاکٹر اشرف آثاری کے مطابق نور شاہ کی کہانیوں کے مطالعے سے ان کی ہمہ گیر مطالعے کا، ان کے زور قلم کا، ان کے وسیع و عریض مشاہدے کا پتہ چلتا ہے اور اس بات کی جانکاری بھی حاصل ہوجاتی ہے کہ ان کے پاس الفاظ کا زخیرہ کتنا وسیع ہے۔ بقول ان کے نور شاہ کے اندر فنکار واہموں اور اندیشوں میں گھرا ہوا ہرگز نہیں ہے اور نہ ہی کسی مایوسی یا قنوطیت کا ہی شکار ہے بلکہ وہ اس طرح کی ناموافق سچویشن کو بھی ایک اڈوینچر کی طرح لیتا ہے اور آگے بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔ وادی کشمیر کے ادبی حلقوں کو اس عظیم لکھاری پر ہمیشہ فخر محسوس کرنا چاہئے کیونکہ اردو ادبی دنیا میں نور شاہ کی وجہ سے ہمیں ایک منفرد پہچان حاصل ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ جموں و کشمیر بورڈ آف سکول ایجوکیشن نے دسویں جماعت کی اردو نصابی کتاب میں ایک افسانہ آسمان، پھول اور لہو شامل کیا ہے جو نور شاہ صاحب نے ہی تخلیق کیا ہے۔
[email protected]