سرینگر// کیرن میں حالیہ گولہ باری کے بعدہر طرف سناٹا چھایا ہوا ہے اور 500افراد پر مشتمل آبادی نقل مکانی کر کے محفوظ مکامات کی طرف بھاگ گئی ہے ۔ معلوم ہوا ہے کہ کیرن میں سکول اور کاروباری ادارے بھی پچھلے تین دنوں سے بند ہیں۔سنیچر کو جیسے ہی کیرن میں ہندپاک افواج کے درمیان گولہ باری کا تبادلہ ہوا تو لوگوں کی نیندیں حرام ہو گئیں ۔گولہ باری کے نتیجے میں ایک خاتون زخمی ہوئی جبکہ کئی مکانوں کو نقصان بھی ہوا ۔گولہ باری کے خوف سے کیرن کے 500لوگ جن میں مردزن بچے اور بوڑھے شامل ہیں، کپوارہ اور وادی کیلئے نقل مکانی کر چکے ہیں۔کیرن کے سید احمد خان نامی ایک شہری نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا جو لوگ کیرن میں ہیں، وہ خوف کے مارے سہم کر رہ گئے ہیں،کیونکہ ایسے لوگ معمولی آواز کے سننے ہی مکانوں کی زمینی منزلوں میں پنا لے لیتے ہیں ۔سید نے کہا کہ جب آر پار گولہ باری ہوئی تو اس کے بعد کیرن میں سکول اور کاروباری ادارے بندہو گئے اور کیرن میں ہر طرف سناٹا چھاگیا ۔سید نے کہا کہ حالیہ گولہ باری میں کیرن میں 39کے قریب گولے گرے ۔سید نے کہا کہ ہم نے گولہ باری کو قریب سے دیکھا ہے اور اب ہم لوگ کسی اور مصیبت کیلئے تیار نہیں ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ گولہ باری کے دوران لوگوں کے پاس چھپنے کیلئے مورچے بھی نہیں ہیں اور ایسے میں اگر اب دوبارہ گولہ باری ہوتی ہے تو ہم لوگ کہاں جائیں گے ۔سید نے کہا کہ سنیچر کے بعد اگرچہ کیرن میں اب کسی بھی جگہ سے گولہ باری کا کوئی بھی واقعہ پیش نہیں آیا ہے، تاہم لوگ گھروں سے باہر نکلنے سے بھی ڈر محسوس کرتے ہیں۔ کیرن کے لوگوں کا کہنا ہے کہ1996سے2003تک ہندپاک کے درمیان ہونے والی گولہ باری میں یہاں کافی تعداد میں لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ سال 2003میں جب سرحدوں پر جنگ بندی ہوئی تھی تو ہم لوگوں نے یہاں پر راحت کی سانس لی اور زندگی13سال تک بنا کسی رکاوٹ کے رواں دواں تھی ،لیکن اب ایک مرتبہ پھر ہم لوگ ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہو گئے ہیں ۔معلوم رہے کہ کیرن کی آبادی ساڑھے 8ہزار کے قریب ہے اور 90کی دہائی میں اس علاقے سے5000 افراد پر مشتمل آبادی نے نکل مکانی کر کے سرحد کے اُس پار ہجرت کی تھی اور یہ لوگ آج بھی سرحد کے اُس پار ہیں ۔