سید مصطفیٰ احمد
زندگی جدوجہد کا نام ہے۔ دوسرے الفاظ میں زندگی کا مقصد اُتارو چڑھاؤ ہے۔ جنم سے لے کر موت تک ،ایک لمحہ خوشی کا تو دوسرا غم کا ضرور ہے۔ اسی غم اور خوشی کے لمحات کے درمیان یہ فانی زندگی گزر جاتی ہے اور انسان اس دنیا کو الوداع کہہ کر وہاں پہنچ جاتا ہے جہاں سے کوئی آواز لوٹ کر نہیں آتی۔ مفکرین سے لے کر مبغلین تک ہر کسی نے زندگی کے بارے میں بہت سوچ وچار کیا ہے۔ کسی نے کچھ اور کسی نے کچھ اصطلاحات کے ڈھیر لگا دئیےہیں۔ کسی کے یہاں زندگی سفر ہے ،تو کسی کے یہاں آخرت کی خاطر تیاری کرناہے۔ کسی کا خیال ہے کہ زندگی کھانے، پینے اور عیش کرنے کا نام ہے۔ کسی کاکہنا ہےکہ زندگی ایک بددعا ہے جس کی سزا اِسی دنیا میں مل رہی ہے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ البتہ جو چیز سب اصطلاحات میں ایک جیسی ہے وہ یہ ہے کہ زندگی جدوجہد کا نام ہے۔ اُداسیوں کے لمحات میں بھی دور اندیشی کا دامن تھامے رکھنا زندگی کہلاتی ہے۔ جب طوفان نہ تھمنے کا نام لے، اُس وقت اپنی نائو کو طوفان میں ڈالنا زندگی ہے۔ جب اندھیرا جانے کا نام لے، اُس وقت روشنی کی تلاش کرنا زندگی ہے۔
البتہ ہمارے یہاں زندگی کا محدود نظریہ رائج ہے۔ کھانا، پینا،سونا، کمانا، مکان بنانا، شادی کرنا، اپنی اولاد کا مستقبل سنوارنا، دولت اکٹھی کرنا، سماج کی نظروں میں نیک دِکھنا، لوگوں سے تعریفیں سننا، وغیرہ۔ ان چیزوں میںتو کچھ زندگی کی بنیادی ضروریات میں شامل ہیںجن کے بغیر کوئی چارۂ کار بھی نہیں، البتہ یہی مکمل زندگی نہیں ہے۔ اگر یہ کہنا غلط نہ ہو تو یہ ناقص زندگی ہے۔ کھاتے اور پیتے جانور بھی ہیں، جانوروں کے بھی آشیانے ہیں، وہ بھی پیار و محبت سے لبریزہیں۔ اُن میں بھی شفقت و ہمدردی کے اوصاف پائے جاتے ہیں۔اگر ایسا ہی سب کچھ ہےتوپھر انسان اور جانور میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ اگر انسان کو محض یہی فکر دامن گیر رہے کہ زندگی کا مطلب ہے کامیابی اور کامیابی مادیت میں ہے، تو یہ بات نمایاں ہوجاتی ہے کہ اس قسم کی زندگی،اصل زندگی نہیں ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو صرف محدود مقاصد کے لیے یہاں بھیجے اور انسان کو دی ہوئی ذہانت اور دوراندیشی کا کوئی بھی فائدہ نہ ہو! خدا نے انسان کو یہاں کچھ مخصوص مقاصد کے لیے بھیجا ہے۔ اُن کو بھُلاکر چند چیزوں کا دیوانہ ہونا عقل سے پرے ہے۔ وسیع کائنات میں صرف چند پھول اور کانٹوں کے خوگر ہونا دانائی اور انسانی اقدار کے بالکل خلاف ہے۔
زندگی کو حقیقی معنوں میں اگر جینا ہے تو بنیادی ضروریات کے علاوہ کچھ آفاقی اصولوں کو بھی عملانا ہوگا۔ چیزوں سے اوپر اُٹھ کر دیکھنا ہوگا۔ اصلیت کو فوقیت کوسرسری نگاہ سے دیکھنےکی آنکھ کو بدلنا ہوگا۔ تنوع زندگی کی سانس ہے، اس تنوع پر غور و فکر کرنا نہایت اہم ہے۔ موت کے فلسفہ پر بھی غور کرنا لازمی ہے۔ ہر وقت سورج اور چاند کی شکلوں کا بدلنا، مختلف موسموں کا آنا جانا، دُکھ درد کے حقائق سے روشناس ہونا، مذاہب کے بنیادی اصولوں کو تولناہی تو زندگی ہے۔ پیٹ کھبی نہیں بھرتا ، لالچ کی کوئی انتہا نہیں ہوتی ،اس حقیت کو سمجھنا زندگی ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم سوال ہے کہ سکون کیا ہے، دُکھ سے اتنی نفرت کیوں ہے، ہر کوئی خوش کیوں رہنا چاہتا ہے، سنیاسی یا تیاگی کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح نفس سے کیا مراد ہے،نفس کی حقیقت کیا ہےاور نفس کو قابو میں رکھنا کیوں ضروری ہے۔ان پر غور و فکر کرنا اصل زندگی ہے۔
یا رکھئے،دنیا کی زندگی تو فقط کھیل تماشاہ ہے،مال و دولت اور اولاد تو چند روزہ زندگی کے بنائو سنگھار ہیں،دنیا کی مرغوب چیزیں زندگی کے چند روزہ فائدے ہیںجبکہ ہمیشہ کا ٹھکانہ اللہ کے ہاں ہے۔زندگی کیا ہے؟ صرف وقت! پس اگر ہم اس کو ضائع کرتے ہیں تو گویا زندگی برباد کرتے ہیں۔جو شخص اپنی زندگی کو باقاعدہ اور عمدگی سے بسر کرتا ہے ،وہ پھل دار درخت کی مانند ہوجاتا ہے ،ورنہ خار دار جھاڑی۔اس لئے ہمیں چاہئے کہ زندگی کا محاسبہ کریں۔ اس سے ہماری زندگیوں میں سدھار اور ترتیب آئے گی۔ اس بے ترتیب زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ اس فانی زندگی کے ختم ہونے سے قبل ہی ہم مرجائے تاکہ پھر کھبی مرنا نہ ہو۔ اس جان کو تو ایک دن کو جانا ہے تو جانے سے پہلے ایسا کچھ کرجائیں کہ ہمارا جینا امر ہوجائے۔
پتہ۔حاجی باغ ایچ،ایم،ٹی، سرینگر کشمیر
موبائل۔9103916455
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)