غور طلب
مولانا قاری اسحاق گورا
حال ہی میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے ایک ایسا فیصلہ سنایا ہے جو نہ صرف اردو زبان سے وابستہ کروڑوں ہندوستانی شہریوں کے لیے باعثِ اطمینان ہے بلکہ ہندوستان کی لسانی ہم آہنگی اور آئینی قدروں کے تحفظ کی ایک روشن مثال بھی ہے۔ بمبئی ہائی کورٹ نے بلدیہ کو سائن بورڈ پر اردو کے استعمال کی اجازت دی تھی جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا، مگر عدالتِ عظمیٰ نے اس اجازت کو برقرار رکھتے ہوئے واضح کر دیا کہ اردو کے استعمال پر نہ کوئی قانونی پابندی ہے اور نہ ہی اخلاقی بنیاد پر اس کی مخالفت مناسب ہے۔یہ عدالتی فیصلہ ہمیں اس حقیقت سے بھی روشناس کراتا ہے کہ اردو زبان کا وجود نہ صرف آئینی اور قانونی طور پر جائز ہے بلکہ قومی یکجہتی اور عوامی خدمت کے میدان میں اس کا کردار لازمی ہے۔ مگر یہاں ایک سوال اپنی پوری شدت کے ساتھ ابھرتا ہے کہ عدالت نے تو اردو کو وہ عزت بخشی جس کی وہ مستحق ہے، لیکن کیا ہم بطور سماج اردو زبان کے تحفظ اور فروغ کے لیے کوئی عملی قدم اٹھا رہے ہیں؟ تعلیمی اداروں میں اردو کو ایک غیر ضروری زبان سمجھا جانے لگا ہے۔ سرکاری دفاتر میں اردو محض رسمی طور پر فائلوں میں درج رہ جاتی ہے اور عملاً اس کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ اردو کے اخبارات، رسائل اور جرائد کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ نوجوان نسل اردو کو ’’مشکل‘‘ یا ’’غیر مفید‘‘ زبان سمجھ کر اس سے دور ہو رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اردو داں طبقہ بھی اردو کے فروغ میں صرف زبانی محبت ظاہر کرتا ہے، مگر عملی اقدامات سے گریز کرتا ہے۔ اگر ہم واقعی اردو زبان سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں خود سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ ہم نے اردو کے فروغ کے لیے کیا کیا؟ ہم نے اپنے بچوں کو اردو کیوں نہیں سکھائی؟ ہم نے اپنی دوکان، ادارے یا دفتر میں اردو کا بورڈ کیوں نہیں لگایا؟ ہم نے اردو کتابوں کو گھروں میں جگہ کیوں نہیں دی؟ اگر ہم واقعی اردو سے محبت رکھتے ہیں تو اسے صرف جذباتی علامت کے طور پر نہیں بلکہ عملی زندگی کا حصہ بھی بنائیں۔ہمیں اپنی غفلت کا ازالہ کرنا چاہئےاور اردو کو اس کا جائز مقام دلانے کے لیے اجتماعی شعور کو بیدار کریں۔ اپنے بچوں کو اردو ادب سے روشناس کرائیں، تعلیمی اداروں میں اردو کی تعلیم کو فروغ دیں، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اردو کے مواد کو عام کریں اور سرکاری سطح پر اردو کے حق میں آواز بلند کریں۔ اردو کو اگر روزمرہ کی زبان بنایا جائے اور اس میں تعلیمی، ادبی، سائنسی اور فکری مواد تخلیق کیا جائے تو یہ زبان پھر سے زندہ ہو سکتی ہے۔
اردو صرف ایک زبان نہیں بلکہ ایک تہذیب ہے، جس نے صدیوں تک ہندوستانی معاشرت کو ایک پیغام دیا: ’’محبت سب کے لیے، نفرت کسی سے نہیں۔‘‘ یہ زبان ولی سے لے کر میر، غالب، اقبال، سرسید اور فراق تک ہر اس فرد کی آواز ہے جس نے اس ملک کے فکری اور تہذیبی وقار کو بلند کیا۔سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ، محض ایک زبان کی حمایت نہیں بلکہ ہندوستان کے آئینی نظریے، تہذیبی ورثے اور لسانی تکثیریت کی بھرپور توثیق ہے۔ عدالت نے بجا طور پر کہا کہ زبانوں کو لوگوں کے درمیان دیوار بننے کے بجائے پل کا کام دینا چاہیے۔ یہ بات صرف اردو کے لیے نہیں بلکہ ملک کی تمام اقلیتی زبانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
تاہم اس فیصلے کی اہمیت اسی وقت مکمل طور پر سامنے آئے گی جب ہم اس کو صرف عدالتی کمرے کی حد تک محدود نہ رکھیں بلکہ اس کو عملی زندگی میں نافذ کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔مگر دیکھا یہی جارہا ہے کہ اردو زبان تمام محاذوں پرپیچھے ہٹتی جا رہی ہے۔ہمارا معاشرہ بظاہر اردو سے محبت کا دعوے دار ہے، لیکن عملی طور پر یہ محبت صرف تقاریر، مشاعروں اور سوشل میڈیا پر دکھاوے کی حد تک محدود ہے۔ حقیقی معنوں میں اردو کے لیے کام کرنے والے افراد اور ادارے نہایت محدود ہیں اور جو موجود ہیں وہ بھی اکثر مالی وسائل، حکومتی سرپرستی اور عوامی تعاون سے محروم ہیں۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ اردو زبان ترقی کرے تو ہمیں صرف ریاستی اداروں سے شکایت کرنے کے بجائے اپنی ذاتی اور اجتماعی سطح پر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔گھریلو سطح پر اردو کی بحالی کا سب سے مؤثر ذریعہ یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اردو سکھانے پر توجہ دیں۔ جب تک اردو بولی، لکھی اور پڑھی نہیں جائے گی، وہ صرف کتابوں اور نعروں کی حد تک زندہ رہے گی۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں اردو کو دوسرے درجے کی زبان بنا دیا گیا ہے۔ کئی ریاستوں میں اردو پڑھانے والے اساتذہ کی اسامیاں خالی پڑی ہیں یا بھرتی کے عمل میں دانستہ رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں۔ ہمیں تعلیمی نظام میں اردو کے لیے برابر کے مواقع کا مطالبہ کرنا ہوگا اور یہ مطالبہ صرف اردو داں طبقے تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر انصاف پسند شہری کو اس آواز میں شامل ہونا ہوگا۔
میڈیا اور ڈیجیٹل دنیا میں اردو کا کردار بھی نہایت اہم ہے۔ آج جب ہر چیز اسمارٹ فون پر منتقل ہو رہی ہے تو اردو میں معیاری اور باوقار مواد کی اشد ضرورت ہے۔ اردو ویب سائٹس، بلاگز، یوٹیوب چینلز، پوڈکاسٹس اور ای بکس کی تیاری پر توجہ دی جائے تو اردو ایک مرتبہ پھر نئی نسل کی زبان بن سکتی ہے۔ یاد رکھیں، زبان کا مستقبل اب صرف کتابوں میں نہیں بلکہ ڈیجیٹل دنیا میں بھی ہے۔ ہمیں اردو کو صرف روایتی طریقوں سے نہیں، بلکہ جدید ذرائع سے فروغ دینا ہوگا۔سرکاری اداروں میں اردو کے ساتھ امتیازی سلوک آج بھی جاری ہے۔ اکثر دفاتر میں اردو بورڈ صرف رسمی طور پر لگایا جاتا ہے، لیکن اندر کی کارروائی صرف ایک مخصوص زبان میں ہوتی ہے۔ ایسے میں عدالت کا حالیہ فیصلہ ایک آئینی یاد دہانی ہے کہ اردو صرف ایک طبقے یا مذہب کی زبان نہیں بلکہ ملک کی ایک تسلیم شدہ اور فعال زبان ہے، جس کا استعمال سرکاری سطح پر کوئی غیر قانونی عمل نہیں بلکہ ایک آئینی حق ہے۔اس کے علاوہ اردو کے تحفظ و فروغ کے لیے اردو اکادمیاں، تعلیمی ادارے، ادیب، شاعر، صحافی اور سماجی کارکنوں کو متحد ہو کر کام کرنا ہوگا۔ ایک منظم اور مربوط حکمتِ عملی کے بغیر اردو کے تحفظ کی باتیں صرف جذباتی نعرے بن کر رہ جائیں گی۔ اردو کے نوجوان اسکالرز کو چاہیے کہ وہ تحقیق، تدریس اور ترجمے جیسے شعبوں میں آگے آئیں۔ اگر اردو کو سائنس، ٹیکنالوجی، معیشت اور قانون جیسے میدانوں سے جوڑا جائے تو یہ زبان نہ صرف باقی رہے گی بلکہ نئی نسل کے لیے مفید اور قابلِ استعمال بنے گی۔ ہمیں اپنے دل و دماغ کے دروازے کھولنے ہوں گے اور اپنے تعصبات کو پیچھے چھوڑ کر ایک زندہ، متحرک اور جدید اردو کی بنیاد رکھنی ہوگی۔ آخر میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر اردو کو ہم نے صرف عدالتی فیصلوں، جلسوں یا ادبی تقریبات تک محدود رکھا، تو یہ زبان ایک تاریخ تو بن جائے گی، مگر حال اور مستقبل میں اس کا کوئی کردار نہ رہے گا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اردو کا وجود قائم رہے تو ہمیں اسے اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہوگا، اپنے اداروں، تعلیم، ابلاغ اور اظہار کا ذریعہ بنانا ہوگا۔ ہمیں صرف اردو سے محبت کا دعویٰ نہیں بلکہ محبت کا ثبوت دینا ہوگا اور یہ ثبوت صرف عمل سے ممکن ہے۔
رابطہ۔9897399207
[email protected]