جموں وکشمیر کو زبانی طور پر اوپن ڈیفیکیشن فری یعنی کھلے میں رفع حاجت سے مبر اریاست قرار دیاگیاہے تاہم زمینی سطح کے حقائق حکام کے دعوئوں کے بالکل منافی ہیں اور جہاں عوامی مقامات و شاہرائوں پر بیت الخلاء کی کوئی سہولیات میسر نہیںوہیں ریاست میں اب بھی بہت بڑی آبادی ایسی ہے جو بیت الخلا ء کی انفرادی سہولیات سے محروم ہے ۔حکام نے پچھلے چار سال کے دوران سوچھ بھارت مشن (گرامین ) کے تحت ریاست بھر کے دیہی علاقوں میں 11لاکھ انفرادی بیت الخلا ء اور 1350کمیونٹی بیت الخلائوں کی تعمیر کا دعویٰ کیاہے اور یہ دعویٰ بھی کیاگیاہے کہ بیس لائن سروے (Base line Survey)کے مطابق جتنے بھی بیت الخلاء تعمیرکئے جانے تھے وہ کردیئے گئے ہیں جس کے ساتھ ہی ریاست کو دیاگیاہدف پورا ہوگیا اور یہ کھلے میں رفع حاجت سے مبراہوگئی ۔تاہم اگر زمینی سطح پر حالات کاجائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ یہ دعوے مکمل طور پر حقیقت پر مبنی نہیں ہیںاور اب بھی بہت بڑی آبادی انفرادی بیت الخلائوں سے محروم ہے ،جسے کھلے عام رفع حاجت پر مجبور ہوناپڑتاہے ۔قابل ذکر ہے کہ بیس لائن سروے کئی سال قبل تیار کیاگیاہے جس میں تب بھی سبھی مستحق کنبوں کو شامل نہیں کیاگیا اور پھر پچھلے کئی برسوں کے دوران مزیدکنبے مستحقین کے زمرے میں آگئے مگر حکومت کی طرف سے چونکہ اسی سروے کو ہی بنیاد بنایاگیاتھا،اس لئے یہ کنبے بیت الخلائوں کی تعمیر سے محروم رہ گئے ۔یہ امر بھی حقیقت ہے کہ سکیم کے تحت انفرادی بیت الخلائوں کیلئے بارہ بارہ ہزارروپے فراہم کئے گئے ۔اگر فی کنبہ پورے بارہ ہزار روپے ہی فراہم ہوئے ہوں گے توبھی اس رقم سے آج کے اس مہنگائی کے دور میں ایک بیت الخلاء کی تعمیر انسانی تصور سے باہر ہے ۔اگر چہ کافی لوگوں نے اس رقم کے علاوہ اپنے طور پر پیسے خرچ کرکے بیت الخلائوں کی تعمیر کی لیکن متعدد جگہوں پر خالی کموڑاور ٹین کی چادریں لگاکر ڈھانچےکھڑے کردیئے گئےجبکہ موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق ایک انفرادی بیت الخلاء کی تعمیر میں اچھی خاصی رقم خرچ ہوتی ہے۔اب اس پر بحث کرنامقصود نہیں کہ اعدادوشمار کوکس طرح سے مرتب کرکے پیش کیاگیا ہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ عوامی مقامات اور سبھی گھروں کااحاطہ کئے بغیر ہی ریاست کو اوڈی ایف قرار دیاگیاہے ۔اگر صرفخطہ پیر پنچال کو وادیٔ کشمیر سے ملانے والی مغل شاہراہ کی ہی بات کی جائے تواس پر کسی بھی جگہ پر ایک بیت الخلاء بھی تعمیر نہیں کیاگیاجبکہ روزانہ ہزاروں کی تعدا د میں لوگ اس پر سفر کرتے ہیں ۔ حد تویہ ہے کہ پیرگلی جیسے مصروف ترین مقام پربھی کوئی بیت الخلاء تعمیر نہیں ہوا ۔ا سی طرح سے دیگر کئی سڑکوں پر مسافروں کیلئے بیت الخلاء تعمیر نہیں کئے گئے اور نہ ہی دیگر عوامی مقامات پر یہ سہولت فراہم ہے ۔ کئی مستحق کنبے بھی بیت الخلاء کی سہولت سے محروم ہونےکی وجہ سے ابھی بھی کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیںلیکن اس کے باوجود حکومت کے مطابق ریاست اوڈی ایف ہوچکی ہے اور اب اس درجہ کی برقراری کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ درجہ کی برقراری سے قبل حقیقی معنوں میں اس کے حصول کیلئے اقدامات کئے جائیں اور حکام اسی بات پرمطمئن نہ رہیں کہ ان کی طرف سے فراہم کردہ ڈاٹا کے مطابق جموں وکشمیر کو کھلے عام رفع حاجت سے مبراریاست قرار دیاگیا ہے۔
کیا ریاست واقعی اوڈی ایف ہوگئی ؟
کیا ریاست واقعی اوڈی ایف ہوگئی ؟
جموں وکشمیر کو زبانی طور پر اوپن ڈیفیکیشن فری یعنی کھلے میں رفع حاجت سے مبر اریاست قرار دیاگیاہے تاہم زمینی سطح کے حقائق حکام کے دعوئوں کے بالکل منافی ہیں اور جہاں عوامی مقامات و شاہرائوں پر بیت الخلاء کی کوئی سہولیات میسر نہیںوہیں ریاست میں اب بھی بہت بڑی آبادی ایسی ہے جو بیت الخلا ء کی انفرادی سہولیات سے محروم ہے ۔حکام نے پچھلے چار سال کے دوران سوچھ بھارت مشن (گرامین ) کے تحت ریاست بھر کے دیہی علاقوں میں 11لاکھ انفرادی بیت الخلا ء اور 1350کمیونٹی بیت الخلائوں کی تعمیر کا دعویٰ کیاہے اور یہ دعویٰ بھی کیاگیاہے کہ بیس لائن سروے (Base line Survey)کے مطابق جتنے بھی بیت الخلاء تعمیرکئے جانے تھے وہ کردیئے گئے ہیں جس کے ساتھ ہی ریاست کو دیاگیاہدف پورا ہوگیا اور یہ کھلے میں رفع حاجت سے مبراہوگئی ۔تاہم اگر زمینی سطح پر حالات کاجائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ یہ دعوے مکمل طور پر حقیقت پر مبنی نہیں ہیںاور اب بھی بہت بڑی آبادی انفرادی بیت الخلائوں سے محروم ہے ،جسے کھلے عام رفع حاجت پر مجبور ہوناپڑتاہے ۔قابل ذکر ہے کہ بیس لائن سروے کئی سال قبل تیار کیاگیاہے جس میں تب بھی سبھی مستحق کنبوں کو شامل نہیں کیاگیا اور پھر پچھلے کئی برسوں کے دوران مزیدکنبے مستحقین کے زمرے میں آگئے مگر حکومت کی طرف سے چونکہ اسی سروے کو ہی بنیاد بنایاگیاتھا،اس لئے یہ کنبے بیت الخلائوں کی تعمیر سے محروم رہ گئے ۔یہ امر بھی حقیقت ہے کہ سکیم کے تحت انفرادی بیت الخلائوں کیلئے بارہ بارہ ہزارروپے فراہم کئے گئے ۔اگر فی کنبہ پورے بارہ ہزار روپے ہی فراہم ہوئے ہوں گے توبھی اس رقم سے آج کے اس مہنگائی کے دور میں ایک بیت الخلاء کی تعمیر انسانی تصور سے باہر ہے ۔اگر چہ کافی لوگوں نے اس رقم کے علاوہ اپنے طور پر پیسے خرچ کرکے بیت الخلائوں کی تعمیر کی لیکن متعدد جگہوں پر خالی کموڑاور ٹین کی چادریں لگاکر ڈھانچےکھڑے کردیئے گئےجبکہ موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق ایک انفرادی بیت الخلاء کی تعمیر میں اچھی خاصی رقم خرچ ہوتی ہے۔اب اس پر بحث کرنامقصود نہیں کہ اعدادوشمار کوکس طرح سے مرتب کرکے پیش کیاگیا ہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ عوامی مقامات اور سبھی گھروں کااحاطہ کئے بغیر ہی ریاست کو اوڈی ایف قرار دیاگیاہے ۔اگر صرفخطہ پیر پنچال کو وادیٔ کشمیر سے ملانے والی مغل شاہراہ کی ہی بات کی جائے تواس پر کسی بھی جگہ پر ایک بیت الخلاء بھی تعمیر نہیں کیاگیاجبکہ روزانہ ہزاروں کی تعدا د میں لوگ اس پر سفر کرتے ہیں ۔ حد تویہ ہے کہ پیرگلی جیسے مصروف ترین مقام پربھی کوئی بیت الخلاء تعمیر نہیں ہوا ۔ا سی طرح سے دیگر کئی سڑکوں پر مسافروں کیلئے بیت الخلاء تعمیر نہیں کئے گئے اور نہ ہی دیگر عوامی مقامات پر یہ سہولت فراہم ہے ۔ کئی مستحق کنبے بھی بیت الخلاء کی سہولت سے محروم ہونےکی وجہ سے ابھی بھی کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیںلیکن اس کے باوجود حکومت کے مطابق ریاست اوڈی ایف ہوچکی ہے اور اب اس درجہ کی برقراری کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ درجہ کی برقراری سے قبل حقیقی معنوں میں اس کے حصول کیلئے اقدامات کئے جائیں اور حکام اسی بات پرمطمئن نہ رہیں کہ ان کی طرف سے فراہم کردہ ڈاٹا کے مطابق جموں وکشمیر کو کھلے عام رفع حاجت سے مبراریاست قرار دیاگیا ہے۔
Leave a Comment