اسد مرزا
ترک حکام نے گذشتہ بدھ 19مارچ کو بدعنوانی اور دہشت گردی کی تحقیقات کے الزامات پر استنبول کے میئر اکریم امامو اوغلو کو حراست میں لے لیا، جو صدر رجب طیب اردگان کے ایک اہم حریف مانے جاتے ہیں۔سرکاری خبر رساں ایجنسی انادولو ایجنسی کے مطابق، امامو اوغلو سے منسلک تقریباً 100 دیگر افراد کو حراست میں لینے کے احکامات بھی جاری کیے گئے، جن میں ان کے پریس مشیر مرات اونگون بھی شامل ہیں۔ حراست میں لیے گئے افراد میں استنبول کے ضلعی میئر ریسل امرا سہان اور مرات کالک بھی شامل ہیں۔یہ اقدام حزب اختلاف کی مرکزی جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) کے ایک اہم اجلاس کے انعقاد سے چند روز قبل سامنے آیا ،جہاں امام اوغلو کو CHP کے صدارتی امیدوار کے طور پر منتخب کیے جانے کی توقع تھی۔ سی ایچ پی کے رہنما اوزگور اوزیل نے حراست کو ’’ہمارے اگلے صدر کے خلاف بغاوت کی کوشش ‘‘قرار دیا۔
ہفتے کے روز استنبول میں امامو اوغلو کی حمایت میں مظاہرے پھوٹ پڑے، جہاں پولیس پر آگ اور پتھر پھینکے گئے، پولیس نے کالی مرچ کے اسپرے سے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی، جبکہ دارالحکومت انقرہ میں پولیس نے مظاہرین پر پانی کی بوچھار اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔وزیر داخلہ علی یرلیکایا نے کہا کہ ہفتے کی رات ہونے والے مظاہروں کے بعد 323 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ اس سے پہلے، انہوں نے کہا: ’’ان لوگوںکو قطعاً برداشت نہیں کیا جائے گا جو معاشرتی نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرنا چاہتے ہیں، لوگوں کے امن و سلامتی کو خطرے میں ڈالتے ہیں اور افراتفری اور اشتعال انگیزی کو آگے بڑھاتے ہیں۔‘‘
ہفتے کے دوران، امامو اوغلو اور میونسپل حکام اور میئر کی تعمیراتی فرم کے سربراہ سمیت 100سے زائد دیگر افراد کو حراست کے احکامات جاری کیے گئے اور ان پر غبن اور بدعنوانی کا الزام عائد کیا گیا۔ ان الزامات سے امامو اوغلو انکار کرتے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ سال بلدیاتی انتخابات سے قبل بائیں بازو کے سیاسی اتحاد کے ساتھ تعاون کے حوالے سے ان کے اوپر لگائے گئے دہشت گردی کے الزامات کی بھی تردید کی، جس سے اردگان کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (AKP) کو گزشتہ انتخابات میں بڑا نقصان پہنچا تھا۔
عالمی سطح پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی نے عالمی سطح پر ایک ایسا ماحول قائم کر دیا ہے، جہاں آمرانہ لیڈروں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور جمہوری پسپائی پر آنکھیں بند کرنے کی امریکہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ واشنگٹن ترکی کے ان اقدامات کو چیلنج نہیں کرے گا، کیونکہ وہ انسانی حقوق پر جغرافیائی سیاسی خدشات کو ترجیح دیتا ہے اور اپنے فائدے کو ہمیشہ آگے رکھتا ہے۔برطانوی اخبار دی گارڈین نے واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ کار گونول ٹول کی رپورٹ کے مطابق کہا کہ ریاستہائے متحدہ کے صدر وہاں کی جمہوریت کو کمزور کر رہے ہیں، یعنی امریکہ کو صرف امریکہ سے ہی تعلق ہے جیسا کہ ٹرمپ کی امریکہ فرسٹ پالیسی سے ظاہر ہے۔ بنیادی طور پر، ٹرمپ کو اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ دوسرے آمر اپنے عوام کے ساتھ کیا کررہے ہیں۔ مزید برآں ایران کے ساتھ کسی ممکنہ تنازعے کے مدنظر واشنگٹن کو اپوزیشن لیڈر کی گرفتاری پر انقرہ سے علیحدگی کا خطرہ مول لینے کا امکان نہیں ہےکیونکہ، شام میں حالیہ پیش رفت نے ترکی کی اسٹریٹیجک اہمیت میں ڈرامائی طور پر اضافہ کیا ہے۔ اسد حکومت کے خاتمے اور اہم علاقوں سے ایران کی بے دخلی کے بعد، ترکی نے اہم بنیاد حاصل کی ہے اور امریکہ کو خطے میں استحکام لانے کے لیے اس کے تعاون کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے وسیع تر سیکورٹی فریم ورک میں ایران کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے۔دوسری جانب ابھی تک یوروپی رہنما ؤں نے بھی اردگان پر تنقید کرنے میں احتیاط سے کام لیا ہے۔ جیسا کہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، نے بھی ابھی تک ترکی میں ہونے والے واقعات پر اعتراضات کا اظہار نہیں کیا ہے، ان توقعات کے درمیان کہ وہ یوکرین میں امن فوجیوں کی فراہمی کے لیے جلد ہی انقرہ سے بات چیت شروع
کرسکتے ہیں۔
ٹول نے مزید کہا:’’ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی اور یوکرین پر روس کی طرف ان کی پالیسی کی تبدیلی کی وجہ سے یوروپی رہنما خوفزدہ ہیں اور اپنے دفاع کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس ماحول میں جہاں یورپ کو لگتا ہے کہ شاید اسے روس کے خلاف اپنا دفاع خود کرنا پڑے اور ایسی صورت حال میں اردگان کواپنے ساتھ شامل کرنے کے بارے میں مزید باتیں ہورہی ہیں۔ ‘‘اور شاید اسی لیے یوروپی رہنما اردگان کو ناراض نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ابھی تک یوروپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین اردگان کی تنقید کرنے والی اعلیٰ ترین یوروپی عہدے دار بن گئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ترکی کو ’’جمہوری اقدار خصوصاً منتخب عہدیداروں کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے۔‘‘
زمینی سطح پر محض چند دنوں کے دوران، امام اوغلو کی حراست کے جواب میں جو احتجاج شروع ہوئے ہیں،ان میں کافی اضافہ ہوا ہے اور امام اوغلو کی مقبولیت بھی کافی بڑھ گئی ہے۔ یہاں تک کہ AKP کے لیے ۔ جس کی قیادت صدر رجب طیب اردگان دو دہائیوں سے کر رہے ہیں۔ اس طرح کے کسی بھی اقدام کی حمایت کرنا سیاسی سطح پر ممکن نہ ہوسکے۔ کیونکہ یہ ایک ایسا حربہ ہے جو عام طور پر ڈھٹائی اور کھلے عام آمرانہ ممالک میں دیکھا جاتا ہے، نہ کہ ایسے ملک میں جو اب بھی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔
بنیادی طور پر امامو اوغلو کو پارٹی کا امیدوار قرار دینے کے CHP کے فیصلے نے حکمراں جماعت کے اندر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ 2028 کے آئندہ صدارتی انتخابات سے پہلے کے سالوں میں اس سیاسی رہنما کی مقبولیت کو بڑھتے ہوئی دیکھ کر AKP نے تیزی سے اور جارحانہ انداز میںکارروائی کی۔ لیکن AKP کے اس عمل سے یہ بات بھی بہت واضح ہوگئی ہے کہ صدر اردگان کسی بھی مخالفت کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنا عہدہ کھونا چاہتے ہیں، جس کے لیے انھیں شاید ترکی کے آئین میں تبدیلی بھی کرنا پڑسکتی ہے۔ کیونکہ آئین کے مطابق کوئی بھی شخص دو بار کی مدت کے بعد تیسری بار صدارتی انتخابات میں شامل نہیں ہوسکتا ہے اور ساتھ ہی ان کے اس اقدام نے یہ بھی ظاہر کردیا ہے کہ وہ امام اوغلو سے کتنا ڈرتے ہیں۔ درحقیقت اردگان کی عجلت ان کی اپنی کمزوری کو ظاہر کردیتی ہے۔ کیونکہ اے کے پی اتنی مضبوط نہیں ہے جتنی کہ دکھائی دیتی ہے۔ اگر اسے اپنے انتخابی غلبے پر یقین ہوتا تو اسے امام اوغلو کو جلد از جلد کچلنے کی ضرورت نہ ہوتی۔لیکن اردگان ایک ہوشیار سیاست دان ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگرچہ عوامی غصہ اور امام اوغلو کے گرد مقبولیت کا اضافہ AKP کے لیے مختصر مدت میں کچھ پریشانی پیدا ہو سکتی ہے،لیکن صدارتی انتخابات میں ابھی مزید تین سال باقی ہیں، اور انہیں امید ہے کہ امام اوغلو کی حمایت وقت کے ساتھ اس دوران میں ختم ہو جائے گی۔
مزید برآں یہ پیشگی دباؤ حزب اختلاف کی مضبوط شخصیات کو اردگان کے خلاف بامعنی صدارتی مہم شروع کرنے سے حوصلہ شکنی کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اگر امامو اوغلو کو کامیابی سے ہٹا دیا جاتا ہے تو اپوزیشن کے دیگر ممکنہ امیدواروں کو ڈرایا جاسکتا ہے کہ جو بھی امیدوار AKP کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے اسے بھی ایسے ہی نتائج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔امام اوغلو کی گرفتاری ان کے خلاف سیاسی طور پر محرک قانونی حملوں کے ایک طویل سلسلے میں تازہ ترین کڑی ہے۔2019 میں عہدہ سنبھالنے کے بعد سے، انہوں نے 90 سے زیادہ تحقیقات کا سامنا کیا ہے، جن میں کرپشن اور رشوت ستانی کے الزامات سے لے کر Covid-19 کے دوران پبلک بسوں کو اوور لوڈ کرنے کے مضحکہ خیز الزامات شامل ہیں۔ ان کی گرفتاری سے صرف ایک دن قبل ان کے یونیورسٹی ڈپلومہ کی منسوخی ان کی صدارتی مہم کے تابوت میں صرف آخری کیل تھی ۔ اسے انتخاب لڑنے سے نااہل قرار دینے کی ایک کھلی کوشش تھی۔موجودہ منظر نامے میں، ترکی کی اپوزیشن کو متحد رہنا چاہیے، کیونکہ بڑے پیمانے پر احتجاج، قانونی چیلنجز اور نچلی سطح کی کوششیں اس طرح کے آمرانہ اقدامات کا مقابلہ کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔
امام اوغلو کی گرفتاری صرف ایک آدمی کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ اس بارے میں ہے کہ آیا ترکی جمہوریت رہے گا یا آمریت میں تبدیل ہو جائے گا۔آنے والے دنوں میں ترک عوام کا ردِعمل آنے والی نسلوں کے لیے ملک کے مستقبل کا تعین کرنے کا ضامن ثابت ہوسکتا ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)