حال ہی میںسکما( چھتیس گڑھ ) حملے میں ۲۶؍فوجی جان سے گئے اور کئی ایک زخمی۔۔۔۔ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی بھی خبریں آئی ہیں لیکن حکومت اور میڈیا کی جانب سے اس حملے کو ابھی تک دہشت گردانہ نہیں قرار دیا گیا ۔۔۔ایسا کیوں؟ یہ ایک معمہ بھی ، تیکھا سوال بھی ہے اور غور طلب حقیقت بھی ۔ ملک میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتاجب کہیں اہم واقعات یا حادثات رونما نہیں ہوتے ہوں۔بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے واقعات اورحادثات پیدا کئے جاتے ہیں تاکہ لوگ باگ اُن کے بارے میں تبادلۂ خیالات کرتے رہیںاور اُسی میں الجھے رہیں۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حکمراں جماعت کا کوئی وزیر بے سر و پیر کا بیان دے دیتا ہے اورالیکٹرانک میڈیا اُسی کو موضوع بنا کر رات دن ایک کر دیتے ہیں ۔اپنے کچھ ہم خیال افراد کو چینل کے اسٹوڈیو میں مدعو کرکے اُسی پربحث کرتے رہتے ہیں اور اس طرح ایک عوامی رائے بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس معاملے میں تمام چینل والے مقابلے کی بنا پر ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ان کے یہاں خبروں کا ایک جیسا ہونا اور مباحثے بھی تقریباً ایک جیسے کروانا شامل ہے۔یعنی کہ عوامی رائے کو مہمیز کرنے میں ان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔گزشتہ تین چار برسوں سے اس کا مشاہدہ ہر عام و خاص کر رہا ہے لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ چڑھتے سورج کی سب پوجا کرتے ہیں ،یہ حال ہندوستان میں اِن دنوں رائج ہے۔میڈیا جو کچھ پیش کر رہا ہے عوام اُسی کو صحیح مان رہے ہیں۔چونکہ ایک بڑی آبادی کو خبروں اور مباحثوں کی حقیقت سے واسطہ نہیں ہے اور اُس کے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہے کہ اس کی صداقت کی تہہ میں جائے ، اس لئے اُسے قبول کر لینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔۔۔۔ آخر وہ کر بھی کیا سکتے ہیں، یہ سوچ کر خاموش ہو جاتے ہیں ۔
لیکن میڈیا اس قدر حاوی ہو جائے گا اور اتنے کم وقتوں میں، یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔حال ہی میں چھتیس گڑھ کے سُکما میں جو نکسلیوںکا حملہ ہوا ہے اور جس میں ۲۶؍ فوجی شہید ہوئے ہیں اور کئی شدید زخمی ہوئے ہیں،اس پر میڈیا اُس طرح کا واویلا نہیں مچا رہا ہے جو اس کا وطیرہ رہا ہے، اسی لئے اس کی ایماندری اور سچائی پر سوالیہ نشان لگ رہا ہے۔فرض کیجئے کہ یہ حملہ اگر کشمیر میں ہوا ہوتا تو میڈیا کا کیا رویہ ہوتا اور حکومت کس طرح حرکت میں آتی۔اس سے قبل اُوری کشمیر حملے میں حکومت کی پیش رفت کو دیکھا گیا کہ کس طرح سرجیکل اسٹرائک کرکے خون کا بدلہ خون سے لے لیا گیا۔۔۔۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سُکما میں مارے گئے ہمارے جوانوںکا خون قیمتی نہیں تھا؟اس حادثے پر ہمارے خون میں ابال کیوں نہیں آیا؟یہ کیسا بھید بھاؤ ہے جو کشمیراور چھتیس گڑھ میں فوجیوں کے قتل عام پر ہمارا رویہ مختلف ہوتا ہے؟کیا یہ دہشت گردانہ کارروائی نہیں تھی ؟کیا نکسل ازم ، ٹیررزم نہیں ہے؟عجب تماشا ہے کہ اس حادثے کے تعلق سے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ ۸؍مئی کو میٹنگ کرنے والے ہیں تاکہ کوئی حکمت عملی اپنائی جائے جس سے نکسلی حملوں کو روکا جا سکے جب کہ اس کے بعد کپواڑہ،جنوبی کشمیر میں ہونے والے حملے کو دہشت گردانہ قرار دیتے ہوئے پر وزیر داخلہ نے آناً فاناً میٹنگ طلب کر لی۔
ہماری خارجہ پالیسی تو بُری طرح ناکام تھی ہی،ایسا لگ رہا ہے کہ ہم داخلی طور پر بھی ناکام ہیں ۔انٹیلی جنس کا محکمہ آئے دن ہونے والے اس طرح کے حملوں کی پیش گوئی کرنے میں ناکام رہتاہے۔ایسے میں وزیر اعظم کی ہٹ دھرمی والی نوٹ بندی کا شیرازہ بھی پوری طرح بکھر چکا ہے۔ اس کی وجہ سے نہ دہشت گردی ختم ہوئی ہے اور نہ ہی دہشت گردوں کے پاس روپیوں کی کمی ہوئی ہے۔۔۔۔لیکن میڈیا یہاں خاموش ہے۔سُکما کے اتنے بڑے حملے کو چھوڑ کر وہ طلاق ثلاثہ پر بحث کرانے میں لگا ہوا ہے۔مسلمان عورتوں پر اچانک اس کی اور حکومت کی رحم دلی جوعود کر آگئی ہے وہ اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔اصل مسئلے سے توجہ ہٹانا اب اس کا کام رہ گیا ہے۔ممکن ہے کہ حکومت اور پارٹی کی طرف سے اسے (میڈیا کو)کچھ خاص مراعات حاصل ہوں جن پر اطہار تشکر کے طور ہم میڈیا کایہ حال احوال دیکھتے ہیں ۔
اتنے بڑے ملک ہندوستان کا شعبہ ٔ دفاع میںکام پارٹ ٹائم (جز وقتی)وزیر دفاع سے کام لیا جا رہاہے۔درمیان میں منوہر پاریکر کو جو وزیر دفاع بنایا گیا تھا ،ان کے کام کاج کو لوگوں نے دیکھ ہی لیا ہے اور وہ کتنے لائق وزیر دفاع ثابت ہوئے، یہ بھی کوئی پوشیدہ بات نہیں رہی۔صرف بیان دینے ہی میں ان کی وزارت چلتی رہی اور جب انہیں گوا بھیج کر وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا تو اُن کا ایک بیان آیا کہ میں نے کشمیر کے پریشر کی وجہ سے وزیر دفاع کے بوجھ سے خود کو نجات دلوایا۔اب اسی سے ان کی لیاقت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے یعنی کہ بی جے پی کے پاس ایسا کوئی شخص ہے ہی نہیں جو ملک کی حفاظت کا بوجھ اُٹھا سکے۔لے دے کر ایک نام آتا ہے وہ ہیں ارون جیٹلی۔مودی کابینہ میں جو کچھ بھی ہیں یہی ایک صاحب ہیںلیکن یہ کیا کیا کریں گے۔میڈیا یہاں بھی خاموش ہے اور حکومت سے مطالبہ نہیںکرتا کہ فُل ٹائم وزیر دفاع کیوں نہیں ہے؟میڈیا کو جمہوریت میں چوتھے ستون کا درجہ حاصل ہے لیکن ہندوستان میں ایسا لگتا ہے کہ خود میڈیا نے وہ ستون کھینچ کر گرا دیا ہے ۔
بھکت جو سوشل میڈیا پر سرگرم عمل رہتے ہیں ،انہیں بھی سانپ سونگھ گیا ہے۔سُکما حملے پر ان کی زبان گنگ ہے۔کشمیر میں ہونے والے حملوں پر پانی پی پی کر کوسنے والے یہ بھکت سکما حملے کو دہشت گردانہ حملہ قرار دینے کی ہمت نہیں جٹا پا رہے ہیں ۔انہیں سجھائی نہیں دے رہا ہے کہ رمن سنگھ حکومت کو کوسیں کہ اپنے ۵۶؍انچ والے ہردے سمراٹ کو۔ہندوستان کے کُل رقبے کا ۴۰؍ فی صد حصہ نکسلیوں اور ماؤ وادیوں سے متاثر ہے۔میڈیاشاید اس لئے خاموش ہے کہ نکسلی اپنے ’’حق‘‘ کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور اس لڑائی میں انہوں نے ایک ساتھ کبھی۷۶؍(اپریل ۲۰۱۰ء میں) تو صرف اسی مہینے میں اب تک ۷۲؍ فوجیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ہے۔ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہمہ وقت یہ نکسلی پولیس والوں ہی کو مارتے ہیں۔ایک خبر سوشل میڈیو پر گردش کر رہی تھی کہ نکسلیوں نے فوجیوں کو مار دینے کے بعد ان کے ساتھ زیادتی بھی کی تھی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کے بعد بھی ہمارا خون گرم نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔اور کسی سرجیکل اسٹرائک کا پروگرام ابھی تک نہیں بنا۔
تشدد کسی بھی طرح کا ہو اور کسی کی بھی طرف سے ہو ،اُس کو جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔عدم تشدد گاندھی جی کا عہدو پیمان اور فلسفہ ٔ سیاست رہا ہے لیکن ملک عزیز میں اب کیا کچھ نہیں ہو رہا ہے؟حکومت کو کرنے کے کام بہت ہیں لیکن یہ حکومت گائے ،بیل اور بچھڑوں کے آدھار کارڈ بنانے میں لگی ہوئی ہے،پھر سے گھر واپسی سے محظوظ ہونا چاہتی ہے،طلاق ثلاثہ اس کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہے اورلو جہاد کو ختم کرنا اس کا اولین فریضہ ہے جب کہ وہ کرکٹر ظہیر خان کو اس سے نہیں روک پاتی،کشمیر کے مسئلے کو طول دینا اس کی حکمت عملی کا حصہ ہے،مسلمانوں کے روزگار کو ختم کرنابھی یہ کارِ ضروری سمجھتی ہے اور یہ سب اکثریتی فرقے کو گویا پسند ہے۔اسے دہلی کاروریشن کے ذریعے پھیلائی گئی بدبو بھی پسند ہے مگرکیجریوال کے ذریعے کئے گئے اچھے کام پسندنہیں۔۔۔۔۔بجلی بل اورپانی بل میں کمی اور سرکاری اسکولوں کی حالت میں سدھار پسند نہیں کیونکہ اکثریتی عوام کو فی الحال’ ہندتوا‘ ہی پسند ہے۔جیت پر جیت درج کرلینا اسے نکسلیوں کے ذریعے فوجیوں کے قتل عام کو بھی معاف کر دیتا ہے، کشمیریوں کے حقوق سے بھی منہ موڑنے کو جائز ٹھہراتا ہے اور امیت شاہ کو نکسل باری( مغربی بنگال ) سے انتخابی مہم کے آغازکو ہری جھنڈی بھی دے دیتا ہے!
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریر نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ:9833999883