Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

کیاسو چتا ہندوستاں؟

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: March 28, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
14 Min Read
SHARE
 ہندیاں بایک دِگر آو بختند
فتنہ ہائے کہنہ باز انگتخند
کس نہ واند جلوئہ آب از سراب
انقلاب و انقلاب و انقلاب 
(اقبالؒ)
ہندوستان کی پانچ ریاستی اسمبلیوں خصوصی طورپر اُتردیش اور اُترا کھنڈ کے انتخابات میں جس طرح فرقہ وارانہ، جارحانہ اور شاد نسٹ جذبات اُبھارے گئے۔ وہ اب کوئی پوشیدہ اور پس پردہ امر نہیں رہاہے۔ انتخابات سے پیشتر ہی بھاجپا لیڈروں نے ’’ہندوتو‘‘  کے نام پر جس طرح فرقہ وارانہ صف آرائی کا ماحول پیدا کردیاتھا۔ اس سے کوئی آگاہ ہے۔ بھاجپا لیڈروں نے کبھی گائو کشی کبھی گائو رکھشا کا مسئلہ کھڑا کرکے، کبھی ایودھیا میں بابری مسجد والی جگہ پر رام مندر بنانے کا عہدوپیمان کرکے، کبھی مسلم اکثریتی علاقوں سے ہندوئوں کے انخلاء کا شوشہ کھڑا کرکے، کبھی ’’لو جہاد‘‘ کاواویلا کرکے، کبھی ہندو آبادی میںکمی اور مسلم آبادی میںاضافہ کامسئلہ اُبھار کر، کبھی تین طلاقوںکے مسئلہ کو ہوا دے کر، کبھی مسلم تہواروں پر مراعات دینے اور ہندو تہواروں پر تہی دست رکھنے کاشوشہ مچاکر، کبھی ہندو مستورات کا غیر ہندو افراد کی طرف سے اغواء کی داستانیں بیان کرکے ، کبھی قبرستان بنا کر ساری زمین کو قبرستان بنانے کی افواہیں پھیلا کر، کبھی مسلمانوں کو شدھ کرکے مسلم سے ہندو بنانے کے اقدامات کرکے، کبھی مسلمانوں کو قبرستانوں میں دفنانے کی بجائے شمشان گھاٹوں میں جلانے کا مطالبہ کرکے، کبھی سارے ہندوستان کے باشندے ہندو ہیں کاراگ الا پ کر، کبھی بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کی سُوچنا دے کر انتہائی مکردہ کارکردگی انجام دے رکھی تھی اور فرقہ وارانہ ماحول انتہائی پراگندہ بنا رکھاتھا اور کافی حد تک ذہنی طورپر فرقہ وارانہ صف آرائی ہوچکی تھی۔ انتخابات کے دوران بھی اس قسم کی غوغا  بدستور جاری رہی۔ لیکن انتخابات کے دوران وزیرا عظم ہند جیسی ذمہ دار شخصیت نریندرمودی نے بھی جب انہی خطوط پر انتخابی مہم چلائی تو اس نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ انہوںنے اگر ’’ عید پر بجلی ہے تو دیوالی پر بجلی کیوں نہیں‘‘  ’’ اگر قبرستان کے لئے جگہ ہے تو شمشان گھاٹ کے لئے کیوںنہیں‘‘ وغیرہ کی جملہ بازی کرکے اس فرقہ وارانہ صف آرائی کی آگ میں مزید تیل ڈالنے اور انتخابی مہم کے رائے عامہ کو ’’ہندو تو‘‘ کے نام پر ووٹ دینے کے لئے اُبھارا۔ جس سے انتخابات میں مزید فرقہ وارانہ صف آرائی ہوگئی۔ انتہائی افسوسناک امرہے کہ  اس قسم کی حرکات جن سے فرقہ وارانہ صف آرائی ہوئی کی قانون کے ذریعہ بندش ہے۔ لیکن اس سنگین جرم کا نہ تو سپریم کورٹ نے کوئی نوٹس لیا۔ جس نے کچھ عرصہ پیشتر ہی انتخابات میں فرقہ وارانہ جذبات کو اُبھارنے کے لئے مجرمانہ فعل قراردیا تھا۔ اور نہ ہی الیکشن کمیشن آف انڈیا نے کوئی  انسدادی کاروائی عمل میں لائی۔ حالانکہ الیکشن کمیشن کی نہ صر ف اخلاقی بلکہ قانونی ذمہ داری تھی کہ وہ آزادانہ انتخابات کی خاطر اس طرح کے حالات کا نوٹس لے کر انسدادی کاروائی کرتا۔
 یہ دُرست ہے کہ ان انتخابات میں ایک حد تک برسراقتدار پارٹیوں کی عوام دُشمن اور خرمستانہ پالیسیوں کے خلاف بھی اظہار رائے منفی  طورپر کیاگیاہے۔ لیکن یہ امر بھی ناقابل تردید ہے کہ بھاجپا لیڈروں کی تقاریر اور بیانات سے جو فرقہ وارانہ صف آرائی ہوئی ہے۔ وہ بھی ان ریاستوں میں بھاجپا کی انتخابی کامیابی کے لئے زیادہ تر ذمہ دار ہے۔
 معلوم ہوتاہے کہ یہ صف آرائی لاشعوری ہرگز نہیں ۔ بلکہ انتخابی اغراض کے لئے شعوری پر کی گئی ہے اور اس  کے رُکنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جس طرح بھاجپا ، اس کی قیادت اور نریندرمودی نے اُترپردیش میں وزیراعلیٰ کے عہدہ کے لئے یوگی آدتیہ ناتھ کا انتخاب کیا ہے ۔اُس سے صاف طورپرعیاں ہے کہ یہ حکمت عملی نہ صرف اس برس بلکہ اگلے برس میں ہونے والے صوبائی انتخابات میں بھی جاری رہے گی۔ بلکہ 2019کے لوک سبھا انتخابات میں بھی بھاجپا اس پر عمل پیرا ہوگی اور نریندرمودی دوبارہ برسر اقتدار آنے کے لئے اسی نسخہ کو زیر کار لائیںگے۔ وگرنہ اُترپردیش جیسی بڑی اور حساس ریاست میں یوگی آدتیہ ناتھ بھگوا پوش۔ فرقہ وارانہ ذہنیت کے علمبردار۔ ’’ہندوتو‘‘ کے دل دادا۔ مسلم آزادی میں زبان  داز شخص کو اُترپردیش کی باگ ڈور دینے کی اور کیا ضرورت تھی؟ ظاہر ہے کہ آدتیہ ناتھ اُترپردیش میں ’’ ہندوتو‘‘ کے ایجنڈا پورے طورپر نافذ کریںگے اور پھرا سی حکمت عملی کے تحت 2019کے لوک سبھا انتخاب لڑے جائیںگے۔ اس لئے اُترپردیش کے انتخابات اور آدتیہ  ناتھ کا وہاں وزیراعلیٰ منتخب ہونا فرقہ وارانہ صف آرائی کرکے اگلے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ اس لئے محب الوطن لوگ سخت پریشان اور متفکر ہیں اور وہ اسی غلط روش کو روکنے کے لئے سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔
 بھاجپا کے لیڈر فرقہ وارانہ صف آرائی کرکے اور ویر ساوکر  کے ہندی، ہندو اور ہندوستان کے گمراہ کن نعرہ کی  تکمیل کرکے اپنی  ہوس اقتدار کو پورا کرناچاہتے ہیں۔ لیکن انہیں یہ یادر کھنا چاہیے  کہ ہندوستان مختلف مذاہب، مختلف تہذیبوں، مختلف تمدنوں، مختلف زبانوں اور مختلف خطوں پر مشتمل ہے۔ اس ملک کو ایک زبان۔ ایک مذہب۔ ایک تہذیب اور ایک تمدن پر مشتمل کرکے ایک مذہبی اور ایک دھارمک ریاست میں تبدیل کرنے کی کوششیں اس ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس ملک کی وحدت اور یگانگت کو ختم کرکے تقسیم در تقسیم کی منزل پر پہنچا سکتے ہیں۔  اس ملک میں مختلف رنگ ہائے رنگ کے پھول کھلے ہیں۔ اسے یک رنگی میںہرگز تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ یک رنگی کی کوئی بھی کوشش اس ملک کی سا  لمیت کے لئے زہر قاتل ثابت ہوسکتی ہے اور یہ کوشش سراسر وطن دُشمنانہ اور دیش گھاتک ہے۔ اس کی ہر صورت میں شدت سے  مزاحمت کی جانی چاہیے اور ناکام کردینا چاہیے۔
 بھاجپا اور نریندرمودی نے اپنے پیشروئوں کی ناعاقبت اندیشانہ  اور عوام دُشمنانہ پالیسیوں کے خلاف لچھے دار لفاظی،  محاورہ بازی اور جملہ بازی کے ذریعہ اقتدار حاصل کیاتھا۔ لیکن اپنے اقتدار کے تین سالہ عرصہ میںوہ عوامی مسائل،  مصائب  اور مشکلات کا کوئی بھی حل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور2019 کے انتخابات میں دوبارہ ہندو تو اور فرقہ وارانہ صف آرائی کرکے برسراقتدار آنے کے خواہاں ہیں اوراسی لئے یہ نئی حکمت عملی تیار کرکے اس پر عملدرآمد کیا جارہاہے جوکہ ہندوستانی عوام کو تباہی کے راستہ پر لے جاسکتی ہے۔ ہندوستانی عوام کو بخوبی یہ ذہن نشین کرلیناچاہیے۔ اس حکمت عملی کے باعث موصول شدہ اطلاعات کے مطابق اُترپردیش میںکئی جگہوں پر بلوے بھی شروع ہوگئے ہیں اور اقلیتی فرقے اپنے آپ کو نہ صرف غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں بلکہ خوفزدہ بھی ہیں۔
 محنت کش طبقوں کو خصوصی طورپر یہ امر ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ لٹیرے حکمران طبقے جب بحیثیت مجموعی اپنے اقتدار کو خطرہ محسوس کرتے ہیں  تووہ عوام کو تقسیم کرو اور حکومت کرو کی انگریزوں کی ایجاد کردہ حکمت عملی پر عمل پیرا ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ انگریزوں کے ہندوستان سے انخلاء کے بعد ہندوستان کے لٹیرے طبقوں  سامراجیوں، گماشتہ سرمایہ داروں اور لینڈلارڈوں نے مختلف فریب کاریوں کے ذریعہ نہ صرف اپنے اقتدار کو قائم رکھاہے۔ بلکہ عوام کی لوٹ کھسوٹ اور استحصال بھی انتہائی خوبی سے کیا ہے۔ لیکن اب جبکہ عوام میں بیداری کے کچھ آثار پیدا ہوئے ہیں۔ تو انہوںنے تقسیم کرو اور حکومت کرو کے ۔ برطانوی فارمولہ پر عملدرآمد کرکے فرقہ وارانہ صف آرائی اور فرقہ وارانہ معرکہ آرائی  بروئے کار لانے کافیصلہ کیاہے اور انہیں ایک بار پھر خواب خرگوش میں سلانے کے لئے فرقہ وارانہ صف آرائی کو بروئے کا ر لانے کا فیصلہ کیاہے۔ بھاجپا اور نریندرمودی شعوری طورپر اس پالیسی پر گامزن ہیں اور علامہ اقبال کے الفاظ میں 
آبنائوں تجھ کو رمز آ یۂ  ان اُلملوک
سلطنت اقوام غالب کی ہے یہ جادو گری
خواب سے بیدار ہوتاہے ذرا محکوم اگر
پھر سلادیتی ہے اس کو حکمران کی ساحری 
بھاجپا اور نریندرمودی نے لفاظی اورلچھے دار تقاریروں کے ذریعہ محنت کش عوام کو برسر اقتدار آکر آرام و آسائش کے خواب دکھائے تھے۔ رشوت اور بھرشٹاچار کو ختم کرنے کے وعدے کئے تھے۔ بیکاری اور مہنگائی کا سدباب کرنے کے عہد کئے تھے۔ گھپلوں اور گھوٹالوں سے پاک آزاد معاشرہ کے پیمان کئے تھے۔ہندوستان کو سونے کی چڑیا بنانے کا منظردکھا یا تھا لیکن اس عہد کے تین سال گزرنے کے بعد بھی عوام کو راحت کا کوئی سانس نصیب نہیںہواہے۔ اس لئے فرقہ وارانہ صف آرائی کا کھیل کھیلا جارہاہے اور اس کھیل کے ذریعہ انہوںنے حالیہ اسمبلی انتخابات میںکامیابی حاصل کی ہے۔ اس لئے انہیں گمان ہوگیا ہے کہ اسی راستے پر چل کر وہ عوام کو گمراہ کرکے عوام کو بیوقوفوں کی جنت میںلے جاسکتے ہیں۔ عوام اب جب کہ فرقہ وارانہ صف آرائی کے خطرات کو محسوس کرنے لگے ہیں۔ تولٹیرے طبقے نئے نئے فارمولے پیش کرکے فرقہ واریت کا مقابلہ کرنے کے دعویدار بن کر اپنی نمائندہ دیگر پارلیمانی پارٹیوں کو میدان میں لے آئے ہیں۔ کہیں بھاجپا کے مقابلہ کے نام پر نام نہاد  سیکولرپارٹیوں کے گٹھ جور کرکے بھاجپا کے مقابلہ کا فارمولہ پیش کیاجارہاہے۔ کہیں علاقائی پارٹیوں کا متحدہ محاذ بنا کر بھاجپا کے  مقابلہ کا نسخہ پیش کیا جارہاہے۔ کہیں اقلیتوں کو متحد کرکے بھاجپا کی ’’ہندوتو‘‘ کامقابلہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ لیکن یہ سب فارمولے بیکار ہیں۔ یہ حسب سابق شیر کے منہ سے نکالنے کے نام پر بھیڑیوں کے جبڑے میںپھنسانے کی چال ہے۔
 لٹیرے حکمران طبقوں کی لوٹ کھسوٹ ، استحصال اور ظلم وستم سے نجات کا راستہ ہرگز بورژوا پارلیمانی نظام کی حامل انتخابی پارٹیوں کے کسی متبادل پارٹی یا پارٹیوں کے اتحاد میں مضمر نہیںہے۔ اور نہ ہی فرقہ وارانہ بنیادوں پر اقلیتوں کی پارٹیاں منظم کرنے کے ذریعہ شادنزم کا مقابلہ کیا جاسکتاہے۔ بلکہ یہ عمل ہندو شادنسٹ عناصر کو مزید تقویت دینے کا باعث بن سکتاہے۔ لوٹ کھسوٹ کے استحصالی  نظام سے نجات اور فرقہ وارانہ صف آرائی کا مقابلہ کرنے کے لئے واحد راستہ یہ ہے کہ محنت کش عوام بلا لحاظ مذہب وملت متحد ہوکر طبقاتی جدوجہدوں اور انقلابی جدوجہدوں کا راستہ اختیار کریں اور لٹیرے حکمران طبقوں کی لوٹ کھسوٹ کے خلاف منظم ہو کر روزمرہ کے مسائل پر بھی اور بورژوا جمہوریت کی بجائے عوامی جمہوریت کے قیام کے لئے بھی پیش قدمی کریں۔ ان جدوجہدوں کے ذریعہ جو فرقہ وارانہ اتحاد وجود میںآئے گا۔ اُسی سے فرقہ وارانہ جنون اور شاؤنسٹ نظریات کو بھی شکست ہوگی اور لوٹ کھسوٹ کے نظام سے نجات بھی حاصل ہوسکے گی۔ مذہبی جنون اور شادنزم کے خلاف جدوجہد اور لٹیرے نظام سے نجات کی جدوجہد ایک دووسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ بیک وقت ان دونوں جدوجہدوں کو ملا کر موجودہ خطرناک ماحول سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ پارلیمانی او رانتخابی پگڈنڈیوں کے ذریعہ یا فرقہ واریت کے مقابلہ میں فرقہ واریت اختیار کرنے سے نہ لٹیرے نظام سے خلاصی ہوسکتی ہے اور نہ ہی شاد نزم کے بڑھتے ہوئے سیلاب کا مقابلہ کیا جاسکتاہے۔ اس لئے اس نازک وقت میں محنت کش عوام کو بھول بھلیوں میںپھنسنے کی بجائے محنت کش عوام کے اتحاد اور لٹیرے نظام کے خلاف جدوجہد کے راستہ میںہی مضمر ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کیا گیا تو یہ راستہ محنت کش عوام کوگمراہی کے دلدل میں پھنسادے گا۔ 
[email protected]

 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

وزیر اعظم نریندر مودی نے کٹرا سے سری نگر وندے بھارت ایکسپریس کو جھنڈی دکھا کر روانہ کیا
تازہ ترین
جموں و کشمیر: وزیر اعظم نریندرمودی نے دنیا کے سب سے اونچے ‘چناب ریل پل’ کا افتتاح کیا
تازہ ترین
لیفٹیننٹ جنرل پراتیک شرما کا دورہ بسنت گڑھ، سیکورٹی صورتحال کا لیا جائزہ
تازہ ترین
وزیر اعظم نریندرمودی ریاسی پہنچے،چناب ریل برج کا دورہ کیا
تازہ ترین

Related

کالممضامین

آدابِ فرزندی اور ہماری نوجوان نسل غور طلب

June 5, 2025
کالممضامین

عیدایک رسم نہیں جینے کا پیغام ہے فکر و فہم

June 5, 2025
کالممضامین

یوم ِعرفہ ۔بخشش اور انعامات کا دن‎ فہم و فراست

June 5, 2025
کالممضامین

حجتہ الوداع۔ حقوق انسانی کاپہلا منشور فکر انگیز

June 5, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?