اِکز اقبال ۔ قاضی آباد
عید ہے، یہ دن خوشی، محبت، بھائی چارے اور شکرگزاری کا پیغام دیتا ہے۔ خوب خوشیاں منائیں، خوب کھائیں پئیں ، نئے نئے کپڑے لگائیں۔ آپ نے پورا رمضان کا مہینہ عبادات میں گزارا ، اب خوشی آپکا مقدر ہے۔ مگر اپنے ساتھ ساتھ اپنے آس پاس کی لوگوں کا بھی دھیان رکھیں۔ عید کی حقیقت دراصل اس خوشی میں پنہاں ہے جو ہم دوسروں کے چہروں پر بکھیر سکیں۔ وہ جو خاموشی سے محرومیوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، جو عزتِ نفس کے خول میں بند ہو کر کسی سے مدد نہیں مانگ سکتے، جو آسمان پر چمکتے چاند کو دیکھ تو لیتے ہیں مگر ان کے دل کی تاریکیوں میں روشنی کی کوئی کرن نہیں پہنچ پاتی ۔ آپ کے لیے تو یہ خوشیوں اور مسرتوں والی عید ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کے لیے تو آج کا دن بھی سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں سے ایک ہوتا ہے، اُنکی عید بنیں ‘ کہ یہی تو عید ہے۔
آپ کے گھر میں طرح طرح کے پکوان پکائیں جائیں گے ۔ضیافتوں کی مہک دل کولُبھاتی ہے۔ مگر کیا ہم نے سوچا کہ ہمارے پڑوس میں کوئی چولہا شاید آج بھی خاموش ہے؟ اور وہ انتظار میں ہیں ۔ اُن کا خیال رکھیں اور اُن تک پہنچ کر ان کو اپنے حصے میں سے کچھ خوشیاں کُتر کراُنہیں دے آئیں کہ یہی عید ہے۔آج بھی ہماری بستیوںمیں ایسے لوگ ہیں، جو کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کرتے،چُپ کی چادر تان کر اپنے گھر کے اندھیروں میں گم رہتے ہیں، آپ چاند کی تلاش میں نہ پڑیں، گلی محلے میں نکل جائیں اور اپنے اُن بھائیوں اور بہنوں کے چاند جیسے چہروں کوتلاش کریں،ان تک اپنی خوشیوں کی چہکار پہنچا دیں کہ یہی تو عید ہے۔عید اس وقت مکمل ہوتی ہے جب آپ کسی اور کے لبوں پر بھی مسکراہٹ کا پھول کھلاتے ہیں، جب آپ کسی یتیم بچے کو نئے کپڑے پہناکر اپنی خوشی دوبالا کرتے ہیں، جب آپ کسی بیوہ کے لئے فرحت کا سایہ بنیں، جب آپ بے کس کے ہاتھ میں عیدی تھما کر اس کے بچوں کی عید کا سامان بن جائیں۔
عید بے شک بچوں کی ہوتی ہے۔ہم نے اپنے بچوں کے لیے چمچماتے جوتے، رنگ برنگے کپڑے اور مہنگے کھلونے خرید لیے ہیں، مگر وہ بچے جو حسرت بھری آنکھوں سے ہماری خوشیوں کو تک رہے ہیں، اُن کی عید کا انتظام کون کرے گا؟کوشش کریں آپکی نظر سے آپ کے قریب کوئی بچہ عید کے دن سوگوار آنکھوں سے دوسرے بچوں کی عید کی تیاریاں دیکھ کر مرجھا نہ جائے کہ یہی تو عید ہے۔
عید کا اصل پیغام ’’خوشیوں کو بانٹ کر بڑھانا ہے۔‘‘ مجھے یاد ہے، امی جان عید کے دن صبح سویرے اُٹھ کر گھر کی گائے کا دودھ اپنے ہمسایوں میں بانٹا کرتی تھی۔ ہمیںآج بھی اسی اخوت اور بھائی چارے کی ضرورت ہے تاکہ کسی کی عید ادھُوری نہ رہے۔ اپنے محلے میں وہ گھر ڈھونڈیں جہاں شاید آپ کی مدد کے بغیر عید کی خوشیاں داخل نہ ہو سکتی ہوں کہ یہی تو عید ہے ۔
جتنی استطاعت ہے ،اتنا عید سے پہلے ہی کرنے کی ضرور کوشش کریں یا دوست احباب کے ساتھ مل کر کوئی کوشش کر لیجیے مگر کریئے ضرور۔ جو بھی آپ دے سکتے ہیں، چپکے سے ان گھروں میں دے آئیں جو زندگی کی ضروریات پر قدرت نہیں رکھتے تاکہ وہ لوگ بھی عید کی خوشیوں میں بھرپور شرکت نہ سہی مگر کسی طرح شریک ہو سکیں۔ آئیے اُن چہروں کو اپنے آس پاس ہی ڈھونڈیں ، یہ لوگ دور دراز کہیں بسیرا کر کے نہیں بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ ہمارے قریب ہیں،بس! ذرا غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔آج جب ہم اپنے بچوں کو پیار سے تیار کریں، ان کے ہاتھوں میں عیدی تھمائیں، تو ذرا ایک لمحے کے لیے فلسطین کے اُن بچوں کو بھی یاد کریں جو اپنی ماؤں سے یہ بھی نہ کہہ سکے کہ ’’امّی، مجھے نئے کپڑے چاہئیں‘‘ — کیونکہ اُن کے والد اب زمین کے سینے میں اتر چکے ہیں، اُن کے گھر ملبے کے ڈھیر میں بدل چکے ہیں اور اُن کے خواب راکھ ہو چکے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان معصوموں کا سہارا بنیں، جو ہمیں پکار بھی نہیں سکتے۔ ہم فلسطین کے بچوں تک براہِ راست نہیں پہنچ سکتے، مگر اُن کے لیے دعائیں تو کر سکتے ہیں، مالی مدد کے ذرائع تلاش تو کر سکتے ہیں اور ان مظلوموں کے لیے آواز تو اٹھا سکتے ہیں کہ یہی تو عید ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام مظلوم مسلمانوں کی مدد فرمائے۔
(رابطہ ۔: 7006857283)
[email protected]