سرینگر// کھڈونی کولگام میں2سال قبل منگنی سے ایک روز قبل فورسز کی گولی کا شکار بنے نوجوان آصف رشید تانترے کے اہل خانہ کو معاوضہ دینے کی سفارش کرتے ہوئے انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن نے سیکریٹری داخلہ کو4ہفتوں کے اندر عمل دررآمد رپورٹ کمیشن کے پاس پیش کرنے کی ہدایت دی۔کولگام کے ریڈونی بالا کے رہائشی24سالہ نوجوان آصف رشید تانترے21 جون2015کو علاقے میں جنگجوئوں اور فوج کے درمیان ہوئی خونین جھڑپ کے دوران جان بحق ہوئے تھے۔اہل خانہ کے مطابق آصف کی والدہ پڑوس کے گھر میں گئی تھی اور اس دوران جب آصف نے انہیں گھر سے ہی بلانے کی کوشش کی،تو انہیں نشانہ بناتے ہوئے گولی مار دی گئی جس سے وہ جان بحق ہوا۔پولیس کا کہنا تھا کہ آصف رشید ایک آوارہ گولی کا نشانہ بنے تاہم مقامی لوگوں نے پولیس کے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس جگہ فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ چل رہی تھی وہ اس جگہ سے کافی دور ہیں۔ آصف رشید لالچوک اسلام آباد(اننت ناگ) میں سیمسنگ کی ایک دکان پر سیلز مین کا کام کرتا تھا جبکہ اس کے گھر کی مالی خراب ہونے کے بعد انہوں نے پڑھائی بھی چھوڑ دی تھی۔ادھر 2سال گزرجانے کے بعد بھی آصف رشید کے اہل خانہ کو ابھی تک کوئی بھی معاوضہ نہیں دیا گیا جبکہ بعد میں انہوں نے بشری حقوق کے ریاستی کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹایا،تاکہ انہیں معاوضہ دیا جائے۔ادھر سماعت کے دوران بشری حقوق کے ریاستی کمیشن کے سربراہ جسٹس(ر) بلال نازکی نے درخواست پر فیصلہ صادر کرتے ہوئے کہا کہ2سال قبل آصف رشید ایک جھڑپ کے دوران مارے گئے جبکہ اسکا والد ایک معمر شخص ہے اور بیماریوں میں مبتلا ہے۔ جسٹس(ر) بلال نازکی کی طرف سے دئیے گئے حکم نامے میں کہا گیا کہ آصف رشید کے والد نے انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن سے رجوع کیا جبکہ انہوں نے اپنی درخواست میں کہا کہ انکا بیٹا معصوم نوجوان تھا،اور اس کے نہ رہنے کی وجہ سے پورے کنبے کی زندگی اجیرن بن کے رہ گئی۔ انہوں نے درخواست میں کہا کہ اسکا بیٹا غیر شادی شدہ تھا،اور اس کی ایک اور بیٹی بھی غیر شادی شدہ ہے جبکہ اس کے پاس آمدنی کا کوئی بھی ذریعہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ پہلے ہی ریلیف کیلئے انہیں ایک لاکھ روپے دئیے گئے تھے تاہم حکومت نے جب ایس آر ائو43کے تحت پیش کیا تو اس کو مسترد کیا گیا۔درخواست گزار نے پولیس سربراہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جھڑپ میں3لوگ مارے گئے جن میں سے2 جنگجو تھے جبکہ ایک معصوم شہری تھا۔تاہم ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کا کہنا تھا کہ آصف رشید2010کے دیگر2کیسوں میں ملوث تھا۔ جسٹس(ر) بلال نازکی نے حکم نامہ میں کہا کہ جیسے کہ حکومت کا از خود ماننا ہے کہ آصف رشید بے گناہ تھا،جو فورسز اور جنگجوئوں کے درمیان جھڑپ میں مارا گیا،اس لئے حکومت کے پاس ایسی کوئی وجہ موجود نہیں ہے کہ وہ بزرگ شخص کو ریلیف دینے سے منع کریں۔ بشری حقوق کے ریاستی کمیشن کے سربراہ جسٹس(ر) بلال نازکی نے کہا کہ ان حالات میں درخواست گزار ایس آرائو43کے تحت ریلیف حاصل کرنے کا حق دار ہے جبکہ انہوں نے سیکریٹری داخلہ کو ہدایت دی کہ اس سلسلے میں معقول ہدایات جاری کرتے ہوئے اس کیس کوریلیف کیلئے زیر غور لایا جائے اور کمیشن کے پاس رپورٹپیش کی جائے۔درخواست گزار کو بھی یہ ہدایت دی گئی کہ وہ اپنے بیٹے کے غیر شادی شدہ ہونے کا حلف نامہ کمیشن میں پیش کریں۔